میں الیکٹریکل انجینئر ہوں اور میں نے دو wind power پاور پلانٹس (MW100) بطور آپریشن لیڈ انجینیئر نیشنل گرڈ میں سنک کیے ہیں، اس لیے بجلی کی پیداوار اور استعمال پر روشنی ڈالنے کی جسارت کر رہا ہوں. کیونکہ ہر شخص اس شعبہ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
ملک میں ٹوٹل 41557 میگاواٹ
زمین میں چُھپے خزانے
پاکستان زیرِ زمین پانی کی ایکوئفر کے لحاظ سے دُنیا کی سپر پاور ہے۔ دنیا کے 193 ممالک میں سے صرف تین ممالک چین، انڈیا اور امریکہ پاکستان سے بڑی ایکوئفر رکھتے ہیں۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے میدانی علاقوں کے نیچے یہ ایکوئفر 5 کروڑ ایکڑ رقبے پر سے
پاور آف سندھ
پاکستان کی 77 سال بعد اب آکر بجلی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 31 ہزار میگاواٹ تک پہنچی ہے جب کہ واپڈا نے آج سے 60 سال پہلے ہی اکیلے دریائے سندھ سے 42 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا خاکہ بنا لیاتھا لیکن اقتداریہ نے کسی دور میں اس کو اہمیت نہ دی؟
کسی بھی دریا
اگر پاکستان کی نہروں کی صرف 10 فیصد لمبائی پر ہی سولر پینل لگاکر بجلی پیدا کی جائے تو سالانہ 10 ارب یونٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔نہر کے ہر ایک کلومیٹر کے اوپر 1MW کیپیسٹی کے سولر پینل لگ سکتے ہیں۔ یہ سولر پینل نہ صرف بجلی پیدا کرتے ہیں بلکہ نہروں کے پانی کو بخارات بن کر اُڑنے سے بھی
وادئ کاغان میں مکمل ہونے والے 884 میگاواٹ سُکی کناری ہائیڈروپاور پراجیکٹ نے آج ایک اور اہم سنگِ میل اُس وقت عبور کرلیا جب ماہرین کی ٹیم آج اس کا ٹیسٹ آپریشن شروع کردیا۔ جولائی تک اس کے پہلے یونٹ کے کمرشل آپریشن شروع کرنے کی اُمید ہے۔
کسی بھی آبی ذخیرے کی تکمیل کے بعد اس کی جھیل
دیو ہیکل UPS جو پاکستان کے اندھیرے دور کرسکتے ہیں۔
کیا دنیا میں کوئی اتنا بڑا UPS ہو سکتا ہے کہ کسی ملک کو اس وقت متبادل بجلی فراہم کرسکے جب ملک کا کوئی ایک پاور پلانٹ کسی فنی خرابی کی وجہ سے اچانک بند ہو جائے یا وولٹیج ناقابل قبول حد تک گر جائے؟
پاکستان کو مالک کی ذات نے یہ
خاکی سونا
انجینیئر ظفر وٹو
پنجاب میں 22,000 کلومیٹر کی لمبائی میں پچھلے ایک ماہ سے وہ خاکی سونا بکھرا ہوا ہے جس میں تبت و ہمالیہ کے گلیشئیرز کی طاقت اورکشمیر اور خیبرپختونخواہ کے پہاڑوں کا عرق شامل ہے۔ یہ سونا اگر کسی اور ملک کے پاس ہوتا تو اسے یوں ضائع کرنے کی بجائے سٹاک کیا
دیو ہیکل UPS جو پاکستان کے اندھیرے دور کرسکتے ہیں۔ ( تھریڈ)
آپ آج کل جام شورو پاور پلانٹ میں دُھند کے موسم کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابی کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کو بھگُت رہے ہوں گے۔ کیا دنیا میں کوئی اتنا بڑا UPS ہو سکتا ہے کہ کسی ملک کو اس وقت بیک اپ پاور فراہم کرسکے جب ملک کا
ربڑ ڈیم لاہور کو ری چارج کرسکتا ہے؟
لاہور میں بارش کا 44 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔اگر صرف اس ایک بارش کے زائد پانی ذخیرہ کر لیا جاتا تو واسا کو اگلے ایک مہینہ تک اپنے ٹیوب ویل چلانے کی ضرورت نہ تھی۔ اندازاً 1 لاکھ ایکڑ فٹ پانی لاہور پر ایک دن میں برس گیا جو کہ اس شہرِ بے مثال کے
پاکستان دنیا کی “سن بیلٹ “ پر واقع ہے جہاں سال میں 300 دن بھرپور سورج چمکتا ہے جس سے USAID کی ایک اسٹڈی کے مطابق ہم 2لاکھ میگاواٹ سے زیادہبجلی بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کے ہر مربع میٹر پر اوسطاً 5kWh کی شدت سے شمسی توانائی (DNI) روزانہ پڑتی ہے جوکہ عالمی اوسط 3.5 kWh سے بہت زیادہ ہے۔
صرف لاہور کی ایک سوسائٹی ماڈل ٹاؤن کی چھتوں (1,336,270 مربع میٹر سطح ) پر پڑنے والی بارش کا پانی جمع کیا جائے توایک سال میں 50 کروڑ لٹر پانی اکٹھا ہوسکتا ہے جوکہ ماڈل ٹاؤن کے ایک لاکھ سے زیادہ رہائشیوں کے ایک ماہ کے استعمال کے لیے کافی ہے۔
اسی طرح ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں کی 650,000
بادلوں کے قزاق
(The Pirates of Clouds)
تحریر- انجینیئر ظفر وٹو
کیا انڈیا پاکستان پر اپنے بادلوں کی چوری کا الزام تو نہیں لگا دے گا؟ یہ سوال مجھ سے اس وقت پوچھا گیا جب میں نے پچھلے سال لاہور میں پہلی مصنوعی بارش کے موقع پر اس موضوع پر آرٹیکل لکھا تھا۔تاہم اب سوشل میڈیا پر
10 کروڑ گیلن پانی پینے والے کنویں
راولپنڈی ، اسلام آباد اور گردونواح میں ہونےوالی موسلادھار بارش سے نالہ لئی میں پانی کی سطح بلند ہو گئی ہےاور کٹاریاں کےمقام پر پانی کی سطح ساڑھے 15 فٹ پرآگئی،گوالمنڈی پربھی پانی کی سطح کم ہوکر 18 فٹ ہوگئی ہے۔ یہ فلڈ ایمرجنسی نہیں بلکہ زیرِزمین
پاکستان کے کل رقبے کا پانچواں حصہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں صحرائے تھل، صحرائے چولستان ، خاران اور صحرائے تھر شامل ہیں جہاں پانی کی بہت کمی ہے۔
یو اے ای اپنے صحرا میں طبی پودے اُگانے کے لئے پولی مر کےنیٹ استعمال کر رہا ہے جو کہ رات کو صحرا کی نمی جذب کر لیتے ہیں اورصبح پورے کے
ہم سے “ سولر پینل” نہیں بن رہے اور یار لوگوں نے خلا سے شمسی توانائی زمین پر پہنچانا شروع کردی ہے۔ چند دن پہلے امریکیوں نے خلا سے پہلی شمسی بِیم (beam) زمین پر دے ماری ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دینے والے آزمائشی پرواز “سپیس سولر پاور ڈیمونسٹریٹر (SSPD-1) “کے مشن میں شامل سائنسدان
بلوچستان کی ہوائیں
انجینیئرظفروٹو
بلوچستان کو مالک کی ذات نے ہوا کی تیز رفتاری سے نوازا ہے۔ یو ایس ایڈ کی 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں ملک کے باقی تمام صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ونڈ پاور کا پوٹینشئیل ہے۔
پاکستان کی بجلی کی زیادہ سے زیادہ کھپت اس وقت 28,000
سنہ 2015 میں لاہور میں انجینیئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں ایک نہایت دلچسپ تجربہ کیا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ سے ایک ایسا ماحول دوست حل دیا کہ جس پر عمل کرنے سے ایک بڑے فلائی اوور بنانے سے بھی کم لاگت میں پورے شہر لاہور کی سڑکوں کو مون سون کی بارشوں میں تالاب بننے سے بچایا جا
ہرسال صرف گنے کی ہی ایک فصل پورا تربیلا ڈیم پی جاتی ہے۔
پاکستان میں گنے کی سالانہ اوسط پیداوار 8کروڑ میٹرک ٹن تک ہوتی ہے جب کہ ایک کلو گنا حاصل کرنے کے لئے اندازاً 200 لٹر سے زیادہ پانی خرچ ہو جاتاہے۔اسی طرح ایک کلو گرام چینی پیدا کرنے کے لئے 2000 لٹر تک پانی خرچ ہوتا ہے۔
کتنا
چنیوٹ ڈیم
یہ ڈیم دریائے چناب پر پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں بنے گا۔ یہ دریائے چناب کے اضافی سیلابی پانی کو ذخیرہ کرے گا۔
ڈیم کی جگہ چنیوٹ شہر سے تقریباً 5 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے چناب پر اور موجودہ ریلوے پل سے تقریباً 100 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
مٹی اور پتھر سے بنایا جانے
بھارت میں اس سال زیرِزمین پانی کا ریچارج 360 ملیئن ایکڑ فٹ سے بھی تجاوز کرگیا ہے جس میں قدرتی ریچارج اور انسانی کوششوں سے کیا گیا ریچارج دونوں شامل ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اس سال زمین سے 200 ملیئن ایکڑ فٹ سے بھی کم پانی واپس کھینچا گیا۔
اس طرح اس سال انڈیا میں زمین میں واپس
یوم آزادی 2024:
زیر تعمیر 4500 میگاواٹ دیامر بھاشا ڈیم سائٹ پر قومی پرچم سربلند ہے۔
272 میٹر اونچائی کے ساتھ آٹھ ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ذخیرہ کرنے والا یہ دنیا کا سب سے اونچا رولر کمپیکٹ کنکریٹ (RCC) ڈیم ہوگا۔
کیا وجہ ہے؟
تربیلہ اور منگلا ڈیم اپنی تعمیر کے نصف صدی بعد بھی آج قومی وجہ افتخار سمجھے جاتے ہیں لیکن بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر پر انجینیئرنگ کمیونٹی سمیت عوام وخاص میں کوئی گرم جوشی نظر نہیں آتی۔ نہ ہی قومی میڈیا ان منصوبوں کو کوئی ترجیحی کوریج دیتا نظر آتا ہے۔ نیچے
لاہور کے زیر زمین پانی کی سطح ہر سال تقریباً “ایک میٹر “ کے حساب نیچےگرتی جارہی ہے۔ اتنی تیزی سے نیچے جانے والی میٹھے پانی کی سطح کی وجہ سے ایکوئفر میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے لاہور سے ملحقہ جنوبی علاقوں کا زیر زمین کھارا پانی “ایک میٹر فی کلومیٹر “ کے زاویے سے
کوسٹل واٹر وے
ہنگول ندی سے سمندر میں بہنے والے پانی کے ریلوں کو دل تھام کر منسلک ویڈیو میں دیکھیے۔ کاش کہ سی پیک منصوبے کے منصوبہ ساز موٹرویز کے ساتھ ساتھ اگر گوادر کے لئے ایک “واٹر وے” بھی بنا دیتے تو سی پیک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتا۔
گوادر “ون روڈ ۔ ون بیلٹ” جیسے عالمی
پاکستان میں بلوچستان کا صوبہ شمسی توانائی کی سمندر ہے جہاں ہر مربع میٹر پر توانائی کی شدت 7kWh روزانہ ہے(عالمی اوسط اس سے نصف ہے) ۔ یہ شدت سولر تھرمل پاور پلانٹ لگانے کے لیے آئیڈیل ہے۔اس کے علاوہ جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے علاقے بھی بہت زیادہ موزوں ہیں۔ صادق آباد، نواب شاہ
بوڑھے راوی کا نوحہ
انڈیا نے اس سال دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی بیراج بنا کر شہرِ لاہور کی رونقوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے اور ہزاروں سال پرانے اس تاریخی ثقافتی شہر کو پہلی دفعہ اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
لاہور کی زیرِ زمین پانی کی ایکوئفر شہر کی لائف لائن ہے جس کی
پاکستان کے دیو ہیکل ڈیپ فریزرز
انجینیئر ظفر وٹو
پاکستان کے شمالی علاقوں میں سردیوں میں پڑنے والی برف وہ سفید تیل ہے جو پاکستان کی معیشت کے انجن کو سارا سال چالو رکھتا ہے۔ یہ برف پنجاب اور سندھ کی فصلوں کے لئے درکار آدھے سے زیادہ پانی فراہم کرتی ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں
پنجاب نے ملکی تاریخ میں گندم کی سب سے زیادہ کاشت کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔
محکمہ زراعت کے مطابق پنجاب بھر میں 17.4 ملین ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی گئی ہے جوکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.4 ملین ایکڑ زیادہ ہے۔ سنہ 2014 میں یہ ریکارڈ 17.2 ملین ایکڑ تھا۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ
گوادر کے لئے “واٹروے“ ۔۔۔(تھریڈ)
گوادر ون۔روڈ۔ون۔ بیلٹ جیسے جدید عالمی تجارتی راستے کا صدر دروازہ ہے جس کے تالے کی کنجی گوادر سے چارسو کلومیٹر مشرق میں ہنگول نیشنل پارک میں ہنگلاچ ماتا کے مندر میں پڑی ہوئی ہے۔ یہ وہ انقلابی واٹر وے ہے جو ساحل مکران کی تمام بندرگاہوں اورماڑہ،
الحمدللہ کرم تنگی ڈیم کی فزیبیلٹی اسٹڈی تکمیل کے قریب پہنچی۔ شمالی وزیرستان میں بننے والے اس ڈیم کی جھیل 1923.6 ملیئن کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرے گی۔ یہ ڈیم نہ صرف بنوں اور لکی مروت میں ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب کرے گا بلکہ اس پر 75 میگاواٹ صلاحیت کے بجلی گھر بھی لگیں گے۔
آبادی بڑھ رہی ہے۔ زرعی زمینیں ہاوسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کبھی سیلاب تو کبھی خشک سالی آجاتی ہے۔ سرد اور گرم موسم کی ترتیب میں فرق آگیا ہے۔
فرسودہ نظامِ آب پاشی اور صدیوں پرانے طریقہ زراعت پر ابھی تک کاربند ہیں ،تعلیم کی کمی ہے،شوگر اور آٹا
پاکستان کے جناتی ڈیپ فریزرز۔۔(ایک تھریڈ)
دل تھام کر سُنیں کہ شمالی پہاڑی علاقوں میں ہرسال نومبر سے برف پڑنا شروع ہوتی ہے اور جنوری تک تو دس پندرہ ��ٹ برف پڑچکی ہوتی ہےلیکن اس سال وہاں ابھی تک چھ انچ بھی برف نہیں پڑی یہی حال کشمیر کا ہے حالانکہ شمالی پہاڑی علاقوں میں ہر سال
پاکستان میں ایک کروڑ تیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پر ٹیوب ویل کے پانی سے آبپاشی کے ذریعے فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔پاکستان دنیا میں زمینی پانی کو استعمال کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے جو اپنے پندرہ لاکھ سے زیادہ ٹیوب ویلز کے ذریعےہر سال 50ملیئن ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی زمین سے نکال لیتا ہے جس کی
ہمارے چونچلے
تحریر۔ انجینیئر ظفر وٹو
ہم میدانی علاقوں میں رہنے والوں کے چونچلے سب سے الگ ہیں۔دفتر کے ایک ساتھی ٹوائلٹ میں جاتے ہی ہمیشہ سب سے پہلے کموڈ کا فلش بٹن دباتے اور تبھی اس پر بیٹھ کراسے دوبارہ غلیظ کرنےپر تیار ہوتے جب پہلے سے صاف کموڈ نیلے پانی سے دوبارہ مکمل ایمانی
سندھ طاس کے نہری نظام پر تھریڈ
سندھ طاس کا نہری نظام پاکستان کا بہت بڑا آبی اثاثہ ہے جوکہ 3 بڑی جھیلوں ، 18 بیراجوں، 12 دریائی رابطہ نہروں اور 44 بڑے نہری نظاموں پر مشتمل ہے جن کی لمبائی 44,000 کلومیٹر ہے۔ اتنے بڑے نہری نظام پر اب تک 300 ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔
واپڈا نے دیامر بھاشا ڈیم کی مختلف سائٹس پر رات کو جاری کاموں کی خوب صورت ٹصاویر شئیر کی ہیں۔
یہ ڈیم دریائے سندھ پر گلگت بلتستان کے علاقے میں تعمیر ہو رہا ہے۔ اس کی اونچائی 272 میٹر ہوگی جو اسے دنیا کے سب سے بڑے ڈیمز میں شامل کرے گی۔
اس ڈیم کی مدد سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار
سوہنی کا چناب بھی خُشک ہورہا ہے ۔۔۔ باوجود اس کے کہ دریائے چناب میں آج 2 لاکھ کیوسک سے زیادہ بڑے سیلابی ریلے کی پیش گوئی ہے ۔
دریائے چناب انڈیا کا پاور کوریڈور بننے جا رہا ہے جس پر 70 سے زیادہ ہائیڈروالیکٹرک پاور اسٹیشن بنانے کے منصوبے مختلف مرحلوں میں ہیں جن سے پیدا ہونے والی
قطرہ قطرہ قلزم
انجینیئر ظفر وٹو
اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ کیا تم تربیلا ڈیم کی جھیل کا سارا پانی پی سکتے ہو؟ تو آپ کا جواب ہونا چاہئے "جی ہاں"- مگر کیسے؟ سادہ سی بات ہے کہ قطرہ قطرہ کرکےجناب۔یہی پانی کا قطرہ اگر مسلسل پتھر پر بھی گرتا رہے تو اس میں سوراخ کر دیتا ہے جو کہ عام
راوی کا نوحہ
لاہور کی زیرِ زمین پانی کی ایکوئفر شہر کی لائف لائن ہے جس کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ صدیوں سے دریائے راوی لاہور کے زیرِ زمین پانی کو ریچارج کرتا رہا ہے۔ تاہم 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے بعد دریائے راوی کی روانی بے حد متاثر ہوئی ہے۔
سنہ 2000 میں انڈیا کی طرف سے دریائے
پاکستان کے تینوں بڑے آبی ذخیرے تربیلا ، منگلا اور چشمہ 17 اگست 2023 کو ایک ہی دن ایک ساتھ مکمل بھرگئے تھے ۔ یہ ایک بہت بڑی خبر تھی ۔تینوں ذخیروں میں کل ملا کر 13 ملئین ایکڑ فٹ پانی جمع ہوا تھااور اندازہ تھا کہ یہ سردیوں کی بارشوں کے ساتھ مل کر فصلوں کے لئے کافی ہوگا۔
ملک میں جاری خشک سالی کے خاتمے کے لئے جنوری میں بارشیں ہونا بہت ضروری ہیں کیونکہ ہمارے پانی کے ذخیرے منگلا، تربیلہ اور چشمہ خالی ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔بارش گندم کی فصل کو براہِ راست فائدہ پہنچائے گی اور مکئی کی فصل کی بوائی شروع ہو سکے گی۔ یااللہ رحمت کی بارش عطا فرما۔ آمین
انجنیئرز نے موجودہ ہائی وولٹیج پاور گرڈ کی صلاحیت 30% تک مزید بڑھانے والی نئے دور کی ٹیکنالوجی دریافت کرلی جوکہ ٹرانسمیشن لائنز پر لگے سینسرز اور موسم کی صورت حال کی حالت موجود میں کمپیوٹر ماڈلنگ کر کے پاور سپلائی اون لائن ریگولیٹ کرسکے گی۔
کراچی کے نواح میں حب ڈیم پانی کے مکمل بھرنے کے نشان (لیول 336 فُٹ) تک پہنچ چکاہے اور پانی اگر 4 فُٹ مزید بُلند ہوا تو اس کا اسپل وے چل پڑے گا۔ یہ ڈیم2020, 2022 اور 2023بھی پانی سے مکمل بھر گیا تھا۔
یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ اپنی تکمیل کے 40 سال کے اندر اس کا اسپل وے دوتین بار
منی ڈیم (تھریڈ)
ڈیموں کے ذات پات کے نظام کے مطابق منی ڈیم وہ ڈیم ہوتا ہے جوکہ 20 سے 80 ایکڑ فٹ حجم تک کا پانی ذخیرہ کرسکے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خطہ پوٹھوہار کے اندر ڈیڑھ ہزار سے زیادہ منی ڈیم بنے ہوئے ہیں تاہم منی ڈیموں کی اصل تعداد شائد تین ہزار سے بھی زائد ہے۔ ABAD
پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNDP اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز PCRWR کی رپورٹس نے بھی حکام کو خبردار کیا ہے کہ ہمارا ملک 2025 تک پانی کی مکمل قلت کو پہنچ جائے گا۔
پاکستان کی 60 گی صد سے زیادہ آبادی پینے کا پانی ہینڈ پمپ یا موٹر پمپ سے حاصل کرتی ہے۔مقامی اور عالمی اداروں کی متعدد رپورٹس یہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں پینے کے پانی کی کوالٹی کے تمام اشاریے صحت مند حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔ اکثر لوگ ڈایئریا، ٹائیفایڈ ، آنتوں کے کیڑوں اور
یہ ویڈیو 25 اگست 2024 کو سُکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی ٹیل ریس کی بنائی گئی ہے۔
ایس کے ہائیڈرو جسے سُکی کناری ایچ پی پی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ میں دریائے کنہار پر واقع ایک رن آف دی ریور ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہے، جس کی
ایک سروس اسٹیشن روزانہ تقریباً 19,000 لیٹر پانی استعمال کرتا ہے۔ ایک معیاری کار فی واش تقریباً 80 لیٹر پانی استعمال کرتی ہے، جو براہ راست پانی کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔ سروس سٹیشنز پر پانی کی ری سائیکلنگ کا ایک پلانٹ اس میں سے 60-70% تک پانی کو دوبارہ استعمال کے لیے محفوظ کرنے میں
پاکستان کے دارلحکومت کے شہریوں کے لیے 80 ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والا 167 فٹ بُلند خانپور ڈیم اسلام آباد سے 50 کلومیٹر دور خیبر پختونخواہ کے قصبے خانپور کے قریب بنایا گیا ہے۔ یہ ڈیم 15 سالہ تعمیراتی دور کے بعد 1983 میں مکمل ہوا۔ ڈیم کی جھیل کشتی رانی و دیگر سیاحتی سرگرمیوں
بلوچستان کے ساحلی علاقے میں ہی وہ قدرتی دیو ہیکل بیٹریاں ہیں جو پاکستان میں بجلی کی زیادہ کھپت کے وقت ہونے والی بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے گرڈ کی سطح پر ہزاروں میگاواٹ بجلی سٹور کر سکتی ہیں اور وہ بھی سستی ترین۔ یہ ساحلی علاقے آن ڈیمانڈ پمپ شدہ پن بجلی بنانے کا حیرت
گراف میں انڈیا کے پانی چُوس ڈیموں کی آج کی سٹوریج کی صورت حال ملاحظہ کریں۔ یہ ڈیم ہر سال ہمارے مشرقی دریاؤں کے پانی کا آخری قطرہ تک پی جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں مارتے۔
دریائے بیاس پر بنائے گیا پونگ ڈیم یا بیاس ڈیم کی سٹوریج کیپیسٹی 8 ملیئن ایکڑ فٹ ہے جوکہ تربیلا ڈیم جتنی ہے
پاکستان کے تینوں آبی ذخیرے تربیلا ، منگلا اور چشمہ 17 اگست 2023 کو ایک ہی دن ایک ساتھ بھر گئے تھے۔ ان میں جمع شدہ پانی کا حجم 13 ملئین ایکڑ فٹ تھا۔ تاہم آج کی تاریخ میں ان ذخیروں میں پانی ایک تہائی سے بھی کم رہ گیا ہے جب کہ مون سون کی بارشوں میں ابھی پورے چھ مہینے باقی ہیں۔
مری میٹھے پانی کے سمندر کے درمیان واقع ہے لیکن شہر میں پانی کی قلت ہے۔ یہ ہیرے جواہرات کے بکس کے اوپر بیٹھ کر بھیک مانگنے والی بات ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ بارش مری میں ہوتی ہے جو کہ اوسطاًُ 75 انچ سالانہ ہے ۔اسی طرح پنجاب میں سب سے زیادہ برف بھی مری میں
آج کوٹری بیراج سے 250,000 کیوسک پانی گزر رہا ہے جو کہ اس مون سون سیزن کا ریکارڈ ہے۔
دریائے سندھ پر آخری کنٹرول سٹرکچر کوٹری بیراج ہے۔ یہاں سے نکال کر پانی دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو تر کرتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
ہر سال اوسطاً 29 ملیئن ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جاتا ہے جس کی
یہ تصویر پاکستان میں تعمیر کے لئے بالکل تیار اور مستقبل کے اہم ہائیڈروپاور منصوبوں کو ظاہر کر رہی ہے جن کی مجموعی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 16 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہوگی۔
پاکستان کے پاس قدرتی طور پر 60 ہزار میگاواٹ سے زیادہ پانی سے بجلی بنانے کے مناسب مقامات ہیں جن میں سے ابھی
آج بُڈھے راوی کا دن ہے۔ دریائے راوی میں آج 50 ہزار کیوسک پانی کے ریلے کی آمد کی تیاری ہے۔
سنہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے سے پہلے راوی ہمالیہ سے سالانہ 70 لاکھ ایکڑ فٹ پانی لے کر آتا تھا۔
تاہم انڈیا پاکستان کے درمیان اس معاہدے کے بعد راوی میں پانی کی سالانہ آمد 55 لاکھ کیوسک تک گر
ریکارڈ کے مطابق ملک کے ملک کے 14 اسٹیشنوں پر اوسط سالانہ برف باری 44 انچ یا 3.6 فٹ ہوتی رہی ہے۔ تاہم اس سال ابھی تک صرف ایک اسٹیشن مری پر ہلکی پھلکی برف باری ہوئی ہے باقی اسٹیشن خشک پڑے ہیں۔ 2024 ایک خشک سال نظر آرہا ہے۔
بادلوں کے قزاق (2/2)
پاکستان کو دستیاب سالانہ پانی کا 92 فیصد تک زراعت کے لئے استعمال ہوجاتا ہے ۔ کھیتوں میں ہم ابھی تک ڈیڑھ دوسو سال پرانے فلڈ اری گیشن کے نظام سے آب پاشی کررہے ہیں جب کہ دنیا اعلیٰ افادیت والے نظامِ آب پاشی (HEIS)کو اپنا چکی بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر “مائیکرو”
مٹی کے کٹاؤ کو واضح کرنے کے لئے یہ ایک آسان سا تجربہ پودوں اور درختوں کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
درختوں سے نہ صرف ماحول بہتر ہوتا ہے اوردرجہ حرارت کم ہوتا ہے بلکہ یہ مٹی کے کٹاؤ کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پودوں والی مٹی سے گزرنے والا
پچھلے سال پاکستان کے تینوں بڑے آبی ذخیرے تربیلا ، منگلا اور چشمہ 17 اگست کو ایک ہی دن ایک ساتھ برلب بھرگئے تھے۔ پانی کی دنیا کے لئے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی لیکن اِس سال ابھی تک صرف تربیلا ڈیم کی جھیل بھری ہے اور منگلا ڈیم کی جھیل صرف دو تہائی بھری ہے اور خدشہ ہے کہ اس سال شاید
سیلابوں سے فائدہ اُٹھائیں
انجینیئر ظفر وٹو
پاکستان میں ہر تین چار سال بعد ایک بڑا دریائی سیلاب آتا ہے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں اب تک 21 سے زیادہ بڑے سیلاب آچُکے ہیں۔
2010 کے فلڈ کو سپر فلڈ کہا گیا جس میں 2 کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی
“خُون اور پانی اب ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے”
پاکستان کا خیال تھا کہ کشن گنگا ڈیم کے خلاف اس کے انتہائی مضبوط کیس کی وجہ سے بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی بنا پر بیک فٹ پر جائے گا اور آئندہ کے لئے دریائے چناب پر کوئی نیا منصوبہ نہیں بنا سکے گا لیکن بھارت نے دو قدم اور آگے
ملتان کے اےڈی جٹ ، ذیشان فدا اور ان کے دیگر تین دوستوں نے ایسا زبردست کام کیا ہے کہ اسے نیشل نیوز ہونا چاہئے تھا۔ یہ دوست پندرہ دن پہلے فیصل مسجد اسلام آباد سے اپنی سائیکلوں پر خنجراب کے لئے نکلے اور کل انہوں نے یہ مشکل کارنامہ سر انجام دے دیا۔
میں ان کے وزٹ کو فالو کررہا تھا۔
یہ علاقے پاکستان کا UPS ہیں۔
یہ سہولیات کم ازکم ساحل مکران خصوصا گوادر کے اندھیرے دور کرسکتی ہیں۔گوادر کے صنعتی زون کے لئے بجلی بنا سکتی ہیں۔گوادر کے کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ چلا سکتی ہیں۔
تاہم ۔۔۔
اس وقت بلوچستان پاکستان کے پن بجلی کے نقشے پر کہیں موجود نہیں۔فی
پاکستان کو اللہ نے پانی کے بہترین وسائل سے نوازا ہوا ہے۔ دنیا کے صرف 32 ممالک کی پانی کی فراہمی کی فی بندہ اوسط ہم سے زیادہ ہے۔ تاہم ہمارے پانی کی پیداواری صلاحیت دنیا پانچ فی صد نیچے ترین ممالک میں ہے (US$1.38 فی کیوبک میٹر) جب کہ زرعی پانی کی پیداواری صلاحیت دنیا کے دس فیصد
1956ء میں اٹلی کے شہر وینس میں ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا جب صدیوں بعد پہلی بار شہر کی مشہور نہروں کی نکاسی اور صفائی کی گئی۔
جب پانی کو نہروں سے باہر نکالا گیا تو کیچڑ بھرے نہروں کے نچلے حصوں میں سطح کے نیچے چھپے ہوئے خزانے، ، کھوئے ہوئے آرٹ کے نادرنمونے، ڈوبی ہوئی کشتیاں
اعلانِ شور و غوغا
واپڈا نے خوش خبری دی ہے کہ ملک کے تین بڑے آبی ذخائر تربیلا، منگلا اورچشمہ میں آج پانی کا مجموعی ذخیرہ 11.506ملین ایکڑفٹ ہے، جو گذشتہ 5برس میں آج کے دن 29اگست 2024 پانی کی اوسط دستیابی یعنی 11.267 ملین ایکڑ فٹ کے مقابلے میں 2فی صد زیادہ ہے۔
تربیلا ڈیم19اگست کو
تھر کینال
انجینیئر ظفر وٹو
الحمدللہ تھر کینال کی فیزیبیلٹی اسٹڈی بھی مکمل ہوگئی ہے۔ یہ نہر رینی کینال کی دُم سے نکلے گی جو گُدو بیراج سے آنے والا سیلابی پانی تھر کینال میں ڈالے گی۔ اس مقصد کے لئے رینی کینال کے آخر میں کھینجو نامی گاؤں کے پاس ایک خارجی گیٹ واپڈا نے رینی کینال کی
ورلڈ بنک کے اندازے کے مطابق 1 ملیئن ایکڑ فٹ (MAF) پانی سے 1ارب ڈالر سے زیادہ معاشی نمو کی جاسکتی ہے۔
ہم اس سال کے مون سون سیزن میں 7 ملیئن ایکڑ فٹ پانی سمندر میں بھیج چکے ہیں جس کی کم ازکم اکنامک ویلیو 7 ارب ڈالر بنتی ہے۔
اس 7 ملیئن ایکڑ فٹ پانی میں سے 4 ملیئن ایکڑ فٹ پانی صرف
زندگی بھر کا کمپلیکس
دوسرے صوبوں کا تو پتہ نہیں لیکن پنجاب میں طبقاتی تقسیم تعلیمی زندگی کا سفر شروع ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے۔
پنجاب کے سرکاری سکولوں میں پرائمری سے لے کر سیکنڈری تک داخلہ لینے کے لیے جب بچہ کا نام رجسٹر “داخل خارج” میں لکھا جاتا ہے تو اس میں قوم کا
منگلا پاور ہاؤس کی دو شاندار موازنہ تصویریں جو کہ نصف صدی سے زیادہ کے فرق سے کھینچی گئیں ۔
پہلی تصویر PAM PHILPOTT البم کی ہے جو کہ منگلا ڈیم کنسکٹنٹس کے ساتھ کام کرتے تھے: سنہ 1967 میں پاور ہاؤس کی تصویرجس میں Howell-Bunger والو کام کر رہا ہے۔
دوسری تصویر : عاطف منیر کی
فرانس کے دارالحکومت کی میئر این ہیڈلگو نےآج پیرس سے گزرنے والے دریائے سین میں ڈبکی لگائی اور کچھ وقت تک تیراکی کی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ دریا اتنا صاف ہے کہ پیرس اولمپکس میں بیرونی تیراکی کے مقابلوں کی میزبانی کر سکتا ہے۔
کیا چیئرمین سی ڈی اےراول ڈیم / شاہ پور ڈیم کے پانی
ایک ملیئن ایکڑ فٹ (MAF) پانی سے اوسطاً 4 ملیئن ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے جس کی اقتصادی قیمت کا تخمینہ 1 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔
پاکستان ہرسال اوسطاً تقریباً 29 ملیئن ایکڑ فٹ پانی ناکافی سٹوریج کی وجہ سے سمندر میں بہا دیتا ہے۔
جس کے باعث پاکستان کو ہر سال تقریباً 29 بلیئن ڈالر
گمحلے یا سوسائٹی کی سطح پر کسی گراونڈ یا پارک میں ایک اہم کام بارش کے جمع ہونے والے پانی کو “پانی چوس “کنویں کے ذریعےزیرِ زمین پانی میں شامل کرنا ہے جس سے نہ صرف زمینی پانی کی سطح بلند ہوگی بلکہ بارش کا پانی بھی ضائع نہیں ہوگا۔ریچارج ویل “الٹے فلٹر “ کے اصول پر کام کرتے ہیں۔
دُنیا کے ممالک اوسطاً اپنے کل پانی کا 70 % زراعت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
برِاعظم ایشیا اور افریقہ میں کل پانی کا 81% زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
لیکن
ہم پاکستان میں اپنے کل پانی کے وسائل کا 91% زراعت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
@AmirHQureshi
@SAADK58
اٹارنی جنرل آج شام تک سپریم کورٹ میں الجھے ہوئے تھے کہ سوموٹو کا اختیار ایک جج کے پاس رہے یا تین ججوں کو دیا جائے جب کہ پرسوں انھوں نے ویانا میں عالمی فورم میں بھارت کے کشن گنگا ڈیم کے خلاف پاکستان کا لڑنا ہے۔ سوئی کے ناکے سے تین فرشتے گزرنے والا شہر بغداد کا مناظرہ یاد آرہا ہے۔
دیوہیکل قدرتی UPS کیسے کام کرتے ہیں؟
دنیا بھر میں گرڈ لیول پر بجلی کو ذخیرہ کرنے کے لئے “پمپ شدہ پن بجلی کی سہولیات “ بنائی جاتی ہیں۔ یہ سہولیات بجلی کو پانی کے ذخیرے کی شکل میں اونچائی پر ایک مصنوعی جھیل میں قید رکھتی ہیں۔ پانی نیچے سے پمپ کرکے اوپر بلندی پر مصنوعی جھیل میں
سال 2025 کو ایک ایسے سال کے طور دیکھا جارہا ہے جب پاکستان ایک "پانی کے دباؤ والے" ملک سے "پانی کی کمی" والے ملک کی فہرست میں چلا جائےگا۔ 1960 کے بعد سے پاکستان کی آبادی میں پانچ گنا اضافہ ہونے اور اس وقت ملک میں صرف 30 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے ساتھ، پاکستان کے
گیٹ نمبر 47
پاکستان کے سب سے قدیم سکھر بیراج کا پچاس ٹن وزنی گیٹ نمبر 47 نامعلوم وجوہات کی بنا پر جمعرات کی رات پانی میں گر کر غائب ہوگیا ہے اور ابھی تک اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔یاد رہے کہ سکھر بیراج پر 60 فُٹ چوڑے 66 گیٹ لگے ہوئے ہیں جن میں سے ہر گیٹ کا وزن 50 ٹن ہے۔بیراج کے
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں پمپ شدہ پن بجلی کی سہولیات بنا کر بجلی کے شاٹ ڈاؤن پر قابو پایا جاتا ہے۔ آسٹریا 19%, سوئٹزرلینڈ 32 %, پرتگال 17% اور جاپان کی 8% پن بجلی پمپ شدہ پانی سے بنتی ہے۔ اور تو اور ہمارے پڑوسی ملک میں بھی پمپ شدہ پن بجلی کے بہت سے بڑے بڑے پلانٹ ہیں۔ یو
سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب پر پراجیکٹس سے پہلے پاکستان کو سائٹ کا دورہ کرانا تھا، بھارت نے دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ لگانے سے قبل پاکستان کو سائٹ وزٹ نہیں کرایا۔کیس کی نیوٹرل ایکسپرٹ فورم پر سماعت 20 اور 21 ستمبر کو ہو رہی ہے۔
اگرچہ یہ ریسرچ اور عملی تجربہ لاہور تک محدود تھا لیکن اس کے نتائج کی بنیاد پر پورے پنجاب اور سندھ کے لیے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ PCRWR بھی اس سلسلے میں کافی ریسرچ کرچکا ہے۔ ضرورت اب عملی اقدامات کی ہے۔ پاکستان کے خُشک ہوتے دریاؤں کے پیشِ نظر مون سون میں بارش کے پانی سے
Tarbela Dam: A Marvel of Engineering Excellence in Water Resource Management
Tarbela Dam, nestled on the mighty Indus River, stands as a testament to Pakistan's commitment to sustainable water resource management. As the world's largest earth-filled dam, it plays a crucial role
پانی چوس کنویں
انجینیئر ظفر وٹو
لاہور کی ایکوئفر کو ری چارج کرکے اس کی سطح برقرار رکھنا یا اس کو بلند کرنے کے انتظامات کرنا وقت کی فوری ضرورت ہے۔ انجینیئرز نے تخمینہ لگایا کہ 1800 اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے لاہور شہرسے مون سون میں پڑنے والی بارشوں سے ایک کروڑ سے
بعد میں دن کے وقت جب گرڈ میں بجلی کی کھپت بہت بڑھ جاتی ہے یا کوئی پاور پلانٹ فیل ہوجاتا ہے تو اوپری مصنوعی جھیل سے پانی پائپ لائن کے ذریعے نیچے بجلی بنانے کے لئے ٹربائنوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہ چند سیکنڈوں کے اندر پن بجلی بنا کر نیشنل گرڈ میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی
��وکنڈی - مشکیل ۔ پنجگور روٹ پر سفر کی جھلکیاں ہیں جو کہ پاکستان کا منرل کوریڈور بن سکتا ہے ۔ یہ روڈ ریکوڈک کو پنجگور کے راستے سی پیک اور گوادر سے ملائے گا۔ مشکیل ایریا میں آپ کے بائیں جانب سینکڑوں کلومیٹر نمکیاتی صحرا یا دشت چلتا رہتا ہے جس میں چاروں طرف سے بارشی پانی آکر
پانی کے حد سے زیادہ استعمال نے پاکستان کو "پانی کی کمی کی شدت کی شرح "کے لحاظ سے دنیا میں چوتھا سب سے زیادہ متاثر ترین ملک بنا دیا ہے ۔یہ شرح جی ڈی پی کے ایک یونٹ کو بنانے میں استعمال ہونے والے پانی کی مقدار ہے۔ اس وقت پاکستان کو پانی کی کمی کا شکار ملک قرار دیا جاتا ہے
حکومتِ پنجاب نے میونسپل کمیٹی مری میں چھتوں سے بارش کے پانی کو اکٹھا کرکے ذخیرہ کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔تخمینہ لاگت: 442.32 ملین روپے
پاکستان میں سب سے زیادہ بارش مری میں ہوتی ہے جو کہ اوسطاًُ 75 انچ سالانہ ہے ۔اسی طرح پنجاب میں سب سے زیادہ برف بھی مری میں پڑتی ہے جو
راولپنڈی اسلام آباد سمیت پورے پوٹھوہار میں پچھلے تین چار دن سے مسلسل بارشیں ہورہی ہیں اور ندی نالوں میں طغیانی آئی ہوئی ہے۔ پوٹھوہار ریجن میں جہاں حکومتی مدد سے بنائے گئے 1,500سے زیادہ” منی ڈیم” بےکار کھڑے ہیں وہیں عرفان جیسے ہونہار جوانوں کی اپنی مدد آپ کے تحت ڈیم بنانے اور
سادہ ترین الفاظ میں 1میٹر بائی 1 میٹر کی پختہ سطح پر اگر 1mm بارش ہو تو یہ 1 لٹر پانی بنے گا۔
اس فارمولے کے تحت 4اسکوائر کلومیٹر (2 کلومیٹر بائی 2 کلومیٹر) کے پختہ ایریا پر اگر صرف ایک ملی میٹر بارش ہو جائے تو یہ تقریباً 1MG یا ایک ملیئن گیلن پانی کا حجم فراہم کرے گی۔
ایک نمازی وضو کرنے میں چار سے پانچ لٹر پانی استعمال کرتا ہے جسے گٹر میں بہانے کی بجائے زیرزمین پانی کو ری چارج کرنے اور پودوں کو پانی دینےکے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اندازہ لگائیں کہ اس طرح کا انتظام اگر پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی مسجد میں ہوجائے تو کتنے کروڑ لٹر پانی کی بچت
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے 19 جون سے پہلی پری مون سون بارش کی پیش گوئی کرتے ہوئے 2022 سے بھی شدید سیلابی صورت حال کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس