حجاب رندھاوا
@aiza_malik2
Followers
921
Following
1K
Statuses
546
سانحہ کنن پوش پورہ .. بربریت اور ظلم کی وہ داستان جو دہائیاں گزر جانے کے باوجود اسی سفاکی کے ساتھ آج بھی تازہ ہے آج سے 33 سال پہلے 1991 میں وہ فروری کی 23 -24 کی درمیانی شب تھی جب انڈین آرمی کے تریہگام آرمی کیمپ سے 4 راج پوتانہ رائفلزاور 68 mountain brigde کنن پوش پورہ کی طرف بڑھتے ہیں کنن اور پوش پورہ کشمیر کے دو جڑواں گاؤں ہیں۔(جو حادثے کے بعد ایک ہی نام بن گیا) یہ دونوں گاؤں کشمیر کی راجدھانی سری نگر کے شمال میں تقریباً 90 کلو میٹر کی دوری پرضلع کپوارہ میں آباد ہیں بھارتی فوج کنن پوش پورہ پہنج کر پورے گاؤں کو اپنے حصار میں لیتی ہے۔ رات کے گیارہ بجے مساجد سے اعلان کر کے مردوں کو گھروں سے باہر آنے کا حکم دیتی ہے بھارتی فوج نے اس رات مردوں پر جسمانی تشدد کر کے انھیں پہلے منظم طریقے سے ان کے گھروں سے نکالا اور ان کے محلوں سے دور مختلف علاقوں میں منتقل کیا ۔اس کے بعد بھارتی فوجی گھروں میں داخل ہو گئے بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس رات 170سے زائد بھارتی فوجیوں نے 55سے زائد کشمیری عورتوں کے ساتھ زیادتی کی ان عورتوں میں 13 سال اور 11 سال کی بچیوں کے علاوہ 60 سال کی خواتین بھی شامل تھی ماؤں کے سامنے بیٹیوں کو پامال کیا گیا شیر خوار بچے ماؤں کی گود سے چھین کر کھڑکیوں سے باہر پھینک دئیے گئے جو عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے اور گروپ کی شکل میں خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تاریخ میں ایسے سانحے کی کہیں نظیر نہیں ملتی اس رات کے اختتام پر تشدد سے نیم مُردہ مرد حضرات رینگتے ہوئے برف پر اپنے گھروں کی جانب جا رہے تھے ۔ ان پر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ وہ چلنے کے قابل نہیں تھے ۔ لیکن اپنے گھروں میں پہنچنے کے بعد ان پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب انہوں نے اپنی عورتوں کو ننگی حالت میں خون میں لت پت دیکھا ۔ اگلے ہی دن اس وحشت ناک واقعے کی خبر پھیل چکی تھی سب سے پہلے یہ خبر کشمیر کے ای�� صحافی یوسف جمیل صاحب نے ۱۲ مارچ کو کلکتہ کے ٹیلی گراف میں شائع کی اور اس کے بعد U.K کے ایک نیوز پیپر THE INDEPENDENT نے ایک کہانی کے طور پر پیش کیا جس کا عنوان اس طرح تھا۔’’indian villages tell of mass rape by soliders ‘ جس کے بعد اس واقعے کی 4 دفعہ نام نہاد انکوائری ہوئی متاثرہ خواتین کے میڈیکل اور بیانات قلمبند کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر اس واقعے پہ مٹی ڈال دی گئی اس واقعے کے اہم گواہ پولیس کانسٹیبل عبدل الغنی کو 1993 میں انڈین آرمی نے قتل کر دیا لیکن اس گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور لڑکیاں انصاف کی تلاش میں سرگرداں رہیں سال 2016 میں گینگ ریپ کا شکار ہونے والی پانچ لڑکیوں ایثار بتول، افرابٹ، سمرینا مشتاق، منزہ رشید، اور نتاشا راتھر نے دنیا سے انصاف طلب کرنے کے لیے کیا آپ کو کنن پوش پورہ یاد ہے Do you remember Kunan poshpora? کے نام سے کتاب لکھی جس میں بھارتی فوج کی بربریت کے اس سنگین واقعے اور ان کے ہاتھوں گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کے متعلق تفصیلات تحریر کئیں اس کتاب ��یں ان لڑکیوں نے اس بھیانک رات کے بعد ان دونوں گاؤں کی مفلوج سماجی زندگی کے وہ واقعات درج کئیے ہیں جن کو پڑھنے کے لیے لوہے کا جگر چاہیے اس ماس ریپ (mass rape) کے بعد ان دونوں کے گاؤں کے بچوں کو آج بھی دوسرے گاؤں کے بچے ریپ والے گاؤں کے نام سے پکارتے ہیں۔جس سے یہ بچے ذہنی humalition کا شکار ہوتے ہیں اس کتاب میں ایک بچی لکھتی ہے ’’ میں نے گریجویشن کی ہے ۔لیکن یہاں تک آتے آتے میں نے ہر روز اپنے ہم جماعتوں کی بے عزتی برداشت کی ہے کیوں کہ وہ مجھے ہمیشہ طعنے دے کر کہتے تھے کہ آپ ریپ والے گاؤں سے تعلق رکھتی ہو اور آپ کی ماؤں کے ساتھ آرمی والوں نے ریپ کیا ہے۔تب سے اب تک دہائیاں گزر گئیں اور ہمیں آج بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اور اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جاتا ہے۔اب لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ اب انٹرنیٹ پر آپ کی ماؤں کی تصویریں بھی دستیاب ہیں۔ کنن پوش پورہ کا واقعہ ان چند واقعات میں سے ایک ہے جو دنیا کے سامنے آیا لیکن کشمیری خواتین کی عصمت دری کے ایسے ہزاروں واقعات ہیں جو رپورٹ نہ ہو سکے انسانی حقوق کی تنظیمیں چند دن کے شور کے بعد خاموش ہو جاتی ہیں جبکہ بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں کے خلاف عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے حجاب رندھاوا
1
1
7