ہر ماں جانتی ہےکہ اسکا بیٹا اسکے جسم کے حوس میں مبتلاہے اوروہ چاہتی بھی ہیں کہ وہ اپنا جسم بیٹےکےحوالےکرےتاکہ دونو خوش رہیں لیکن یہ سوچ کےکہ یہ گناہ ہے اپنا زہن بدل دیتی ہیں لیکن سوال یہ کہ غیرمرد کی گھوڑی بنتےہوے یہ خیال نہیں آتا کہ یہ بھی گناہ ہے؟ باہر والےسے اپنابیٹا اچھا نہیں
بھلا یہ کیسےممکن ہےکہ ایک جوان بیٹےکو اپنی ماں سے محبت نہ ہو وہ عورت جو ہروقت آنکھوں کے سامنےرہتی ہو۔باربار پیارے مموں کا دیدارکرواتی ہو۔جھک کے گان��دی��ھا کے لوڑا کھرا کردیتی ہو۔ابو سے چدتے ہوے پیاری آوازیں نکالتی ہو اس سےکیسے محبت نہ ہو یہ محبت مکمل تب ہوگی جب بیٹا ماں پے چڑھے گا
چدائ کےوقت عورت کی سسکیاں،آوازیں اور چیخیں تب نکلتی ہیں جب چودنےوالامرد عورت کی مرضی کاہو اس کی سب سے بڑی مثال امیاں ہیں کچھ دن پہلے ابو اپنے دوست سے کہہ رہے تھے کہ تیرے لن سے شمسہ تڑپ اٹھتی ہےاور میرے لن سے اف تک نہیں کرتی۔دوست بولے میری بیوی کابھی یہ ہی ہے تیرے لوڑےکی دیوانی ہے
ہر بیٹے کو چاہئے اپنی ماں کے لیے خود کوئ غیرمرد ڈھونڈے جو ہماری امیوں کو رانی کی طرح رکھے اور رنڈیوں کی طرح چودے ہماری امیاں تو سادی ہیں۔تگڑا لوڑا دیکھ کے دل ہار بیٹھتی ہیں۔لیکن تگڑے لوڑے کے ساتھ انسان بھی اچھا ہون�� چاہیے۔جس کا سلوک امی کے ساتھ اچھا ہو۔جیسے میری امی کا ٹھوکو ہے
عورت پیسےکی کتنی بھوکی ہے اس کا اندازہ مجھے ابوکے دوست بشیرانکل کو امی پے چڑھےدیکھ کےہوتا ہے بشیر انکل کی عمرکافی زیادہ ہے۔منٹوں میں ہی فارغ ہوجاتے۔لن بھی بڑا نہیں۔پھر بھی امی ان کا لوڑا مزے سے چوستی ہیں۔پوری رات پھدی اور گانڈ میں لن لیتی ہیں۔جس کے بدلے امی کو پانچ ہزار روپے ملتے
امی کو غیرمرد سے چدوانے کاراستہ ابو نے ہی دیکھایا جہاں جہاں ابوکو مشکل پیش آئ وہاں وہاں ابو نے سفارش کے��ور پےامی کی پھدی پیش کی لیکن امی بھی بہت چلاک ہیں۔امی نےان سب سے اپنا تعلق قائم کرلیاہے اب ہر وقت کوئ نہ کوئ امی پے چڑھا ہی ہوتا ہے اور آخر میں امی کے چوپوں کی تعریف ضرور کرتا
دن میں امی ابوکی لڑائ ہو رہی تھی ابوام�� کو گالیاں دےرہےتھے(کن��ری عورت اسلم کے لوڑے پےاچھلتے ہوےجسم میں درد نہیں ہوتا۔میں بستر پےبلاوں تو دردیں شروع ہوجاتی ہیں)امی نےجواب دیا(اس کا لوڑا ہے تگرا تو اچھلتی ہوں اور ظہیر کازکر کرنا بھول گے جس سے پھدی مروا مروا کے آپ کا قرض معاف کروایا
اکثر ابو کو دوستوں کے ساتھ ملکر اپنی بیویوں کے ساتھ سیکس کرتے دیکھا اور یہ سب دیکھنے میں بہت مزا آتا ابو کشمالہ آنٹی کو چود رہے ہوتے اور اسلم انکل امی پے چڑھے ہوتے مفت کے مزے آفتاب اور ظہیر انکل لیتے اپنی تو بیویاں ہیں نہیں امی اور آنٹی کو چود چود کے اپنے آپ کو ٹھنڈا کرتے ہیں
ایک وقت تھا جب ہر مردجوان لڑکی کی خوائش رکھتا۔سب نازک کلی کےپیچھے بھاگتے پر اب ہماری امیوں کےچوپوں نے مردوں کواپنا غلام بنالیا۔اب ہرمرد اپنے بستر پے آنٹی مانگتا کیونکہ وہ جانتاکہ ہماری امیاں نخرےنہیں کرتی بلکہ لوڑا دیکھ کےخودہی جھک جاتی اور لوڑا اپنے ہاتھ سےپکڑ کر اپنے اندر ڈالتی
بےشک ماں کے پیار کا کوئ مقابلہ نہیں لیکن امیوں کو گزرتے دور کے ساتھ اپنے پیار کا طریقہ بدلنا چاہیے آج دور میں ہر بیٹا ماں کےجسم پے فدا ہےاور یہ بات امیاں جانتی ہیں۔اس لیے امیاں بیٹوں کو یہ اجازت دیں کہ بیٹا جب چاہے اپنا لن ماں کے منہ میں دے اور جب دل کرے ماں کی شلوار اتاردے
پتہ نہیں غیرمرد کے لوڑے میں ایسے کونسی لذت ہوتی ہے جس کو دیکھ کے ہماری ماووں کے چہروں پے عجیب سی رونق آجاتی ہے۔جتنی دیر امیاں یار کے بستر پے پڑھی ہوتی ہیں ان کی خوشی آسمان پے ہوتی ہے۔لوڑے پے اچھلتے ہوے وہ بھول جاتی ہیں کہ وہ جوان بچوں کی ماں ہے یا کسی شریف آدمی کی بیوی
یہ کیسا ظلم ہے؟ سردی کی ان یخ راتوں میں ہر گھر کے ایک کمرے میں جوان بیٹا ماں کےجسم کو سوچ کے لوڑا ہلا رہا ہوتا ہے۔ساتھ کمرےمیں کمبل میں لی��ی ننگی ماں پوری رات تگڑے لوڑے کے انتظارمیں گزار دیتی ہے اگر یہ معاشرہ بیٹے کو ماں پے چڑھنے کی اجازت دے دے تو کیا برا؟ گھر میں خوشہالی آےگی
یہ ہے وہ پیار جو غیرمرد ہماری ماووں کو دیتے ہیں۔اسی وجہ سے امیاں ان کے لوڑوں کی غلام رہتی ہیں ورنہ ابو تو صرف یہ کرتےکہ شلوار اتاری،لن اندر باہر،فارغ اور بس سوجاو اور بیچاری امیاں ساری رات تڑپتی رہتی ہیں اس لیے امیوں کو پورا حق ہے کہ اس کے ساتھ بستر گرم کریں جو امی کو ٹھنڈا کرسکے
امیوں کی حوس کی بھی مثال نہیں اورہونی بھی ��ہیں چاہیے مگریہ منافقت نہ کریں کہ بیٹاجب اپنی ماں کے مموں کی لکیر کو گھور رہا ہوتو یہ کہہ کر بیٹےکو شرمندہ کردیتی"میرا دوپٹہ کہاں ہے"اورجب یار محترم کادل کرے ہماری ماں کو دیکھنےکا تو پھر اسطرح امی اپنی گانڈمبارک کا دیدار کرواتی ہیں یارکو
پتہ نہیں امیوں کو یار کے لن میں کونسی لذت ملتی جو ان کی خاطر اپنےبستر پےشوہر کے لوڑے کی عزت کی چودائ چھوڑ کےکسی ہسپتال کے باتھروم میں یار سے چودوانا پسندکرتی ہیں اور یار بھی کوئ اعلی قسم کے چوتیے یہ ہی نہیں پتہ کہ ایسے مکھن جسم والی کو بستر پے لے جا کہ چود��ے ہیں نہ کہ باتھروم میں
صبح امی کےکمرے کی طرف گیا تو دیکھاامی ننگےبدن گہری نیند سوئ ہوئ کمر�� کا ماحول بڑا عجیب تھا۔چاے کے خالی چا�� کپ پڑے۔استعمال کونڈم بےتہاشا دیکھے تیل کی خالی بوتلیں دیکھی۔کرسی ٹوٹی پری تھی۔پتہ لگ رہا تھا کہ رات کو جنگ ہوی ہے امی کی اور ابو کے دوستوں کی اور جنگ جیتی بھی امی نے ہی ہوگی
اس ��ورمیں اچھی ماں صرف وہ ہےجسکو اپنےجوان بیٹےکےکنوارےپن کااحساس ہے ایک اچھی ماں کبھی اپنےبیٹےکو مٹھ کاعادی ہونےنہیں دیتی ہرعورت کو چاہیےکہ رات ک��خواند کو ٹھنڈا کرنےکےبعد بیٹےکےکمرےمیں چلی جاےاور بیٹےکو اپنے اوپر چڑھالے ماں بیٹا فا��غ ہونےکےبعد ننگے بدن ایک دوسرے سے چپک کے سوجائں
صبح کھڑکی سے امی کو ابو کی سواری کرتے دیکھا پہلے تو امی کی اچھلتی گانڈ دیکھ کر لوڑا پاگل ہوا ساتھ ذہن میں بات آئ کہ امیاں بھی کتنی عجیب ہیں ابو چودے تو بس شلوار اتار کے لوڑے پے بیٹھ گئ۔اور جب سامنے یار ہوتو خود ننگا ہوکےممے یار کے منہ میں دیتی ہیں اور گھنٹوں یار کا لوڑا چوپتی ہیں