balochistanfact Profile Banner
Balochistan Facts 🔎 Profile
Balochistan Facts 🔎

@balochistanfact

Followers
3K
Following
397
Statuses
189

• Uncovering the truth • Exposing disinformation and propaganda • verified facts • 📍#Balochistan

Balochistan
Joined October 2024
Don't wanna be here? Send us removal request.
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
4 months
بعنوان: ثمینہ شیخ سے سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری بننے تک 🧵 • کرپشن، زمینوں پر قبضہ، اقدام قتل، اغوا برائے تاوان ، کراچی سے ابوظہبی کے شراب اسٹورز سے سینٹ کی 35کروڑ-25 کڑور کی دو سیٹ تک (پڑھتے جائیں اور بلوچستان کی قسمت پر ماتم کرتے جائیں ) 1/n #Balochistan
Tweet media one
Tweet media two
9
41
113
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
7 hours
@bazai_tania @HamidMirPAK #Factcheck 🚨 ⬇️ بلوچستان بھر میں بک اسٹال پر تقریباً 12 بڑے شہروں کے 21 مقامات پر ریاستی فورسز بلخصوص پولیس اور لیویز نے دھاوا کیا ، شرکاء کی پروفالنگ کی گئی ، کتابیں چھین کر طلباء پر درجنوں سنگین مقدمات درج کیے گئے ⬇️
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
7 hours
#Facts 🚨 Records of police crackdown on Book stalls across Balochistan … ⬇️ ( محترمہ تانیہ ! بغیر معلومات کے اسلام آباد میں بیٹھ کر خود کو "اچھا بلوچستانی" ثابت کرنے سے گریز کریں اور غلط معلومات مت پھیلائیں ) ⚠️ ⬇️ بلوچستان بھر میں کتاب کاروان کے کتابی اسٹال پر تقریباً درجن بھر شہروں کے 21 مقامات پر ریاستی فورسز بلخصوص پولیس اور لیویز نے دھاوا کیا ، شرکاء کی پروفالنگ کی گئی ، کتابیں چھین کر طلباء پر درجنوں سنگین مقدمات درج کیے گئے اس تمام صورتحال کو مقامی، ملکی اور غیر ملکی صحافیوں نے رپورٹ کیا ہے کتاب کاروان پر ریاستی دھاوا کے واقعات : ⬇️ 1- گوادر شہر میں 21 جنوری بوقت 12 بجے کو ڈھوریہ سکول کے سامنے بک سٹال پر حملہ ہوا ، شرکا اور کتابیں گرفتار کی گئیں ⬇️ نیز یہ کتابیں پچھلے ایک ماہ سے گوادر پولیس اسٹیشن میں قید ہیں ⬇️ 2- حب : بلوچستان کے صعنتی شہر ، حب میں 20 جنوری کو جن طلباء نے بک اسٹال لگایا تھا ، ان پر ناصرف پرچہ درج کیاگیا بلکہ مقدمات میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں ⬇️ 3- سبی : 11 جنوری 2025 کو بلوچستان کے شہر سبی میں لگے کتاب کاروان پر لیویز اہلکاروں سمیت چند نامعلوم افراد نے حملہ کرکے سٹال پر موجود نوجوان عامر بلوچ کو لاپتہ کیاگیا اور کتابیں ضبط کرکے نامعلوم مقام منتقل کردی گئیں تھیں ۔۔ 4- ڈیرہ مراد جمالی : اس سے قبل 7 جنوری 2025 کو بلوچستان کے ڈیویژن نصیرآباد کی تحصیل ڈیرہ مراد جمالی میں ناصرف اسٹال پر پولیس نے دھاوا بول کر طلباء کی پروفالنگ کی بلکہ بعد ازاں کتابیں چھین کر طلباء پر مقدمات درج کئے گئے 5- ڈیرہ غازی خان شہر میں بلوچستان کتاب کاروان پر پنجاب پولیس نے دھاوا بول کر کتابیں چھین لیں اور شرکا پر مقدمات درج کئے گئے جبکہ دوسرے روز اس واقع کے خلاف پریس کلب پر احتجاج کرنے والے طلباء پر تشدد کیاگیا اور احتجاج کرنے والے بیشتر طلباء کو لاپتہ کیاگیا 6- یارو کھوسہ : کوہ سلیمان کے شہر یاروکھوسہ میں 23 جنوری 2025 کو باڑر ملٹری پولیس + پنجاب پولیس نے بک اسٹال پر دھاوا بول کر کتابیں ضبط کرلی اور شرکا طلباء پر مقدمات درج کئے گئے 7- داجل : کوہ سلیمان کے ایک چھوٹے سے قصبے داجل کے اندر 29 جنوری کو بلوچستان کتاب کاروان کے سلسلہ میں لگے بک اسٹال پر دھاوا بول کر پولیس نے درجنوں کتابیں ضبط اور طلباء کو لاپتہ کردیا تھا جنھیں چند گھنٹوں پر رہا کردیا گیا تھا 8- فاضلہ کچھ شہر : کوہ سلیمان کے شہر فاضلہ کچھ میں 27 جنوری کو بارڈر ملٹری پولیس نے دھاوا بلوچ کر جاری کتاب کاروان کے سٹال کو زبردستی بند کروا کر کتابیں چھین لی تھیں ۔۔ ⬇️ 9- تونسہ : تونسہ شہر میں 14 جنوری 2025 کو لگے بلوچستان کتاب کاروان کے سٹال پر پنجاب پولیس اور نامعلوم افراد نے دھاوا بول کر ، سٹال پر موجود طلباء کی پروفالنگ کی گئی بعد ازاں بلوچ خاتون سعدیہ بلوچ کو وقتی طور پر نظر بند کردیا گیا تھا ۔۔ ⬇️ اس کے علاوہ، بلوچستان کے مختلف چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں سمیت پنجاب اور سندھ کے بلوچ علاقوں میں بھی کتابی اسٹالز پر موجود طلبہ اور شہریوں کو ہراساں کیا گیا۔ بعض مقامات پر دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کیے گئے۔ **بلوچستان فیکٹ**: کسی بھی شہری کو، چاہے وہ بلوچستان میں موجود ہو یا ایک دہائی سے ہزاروں میل دور اسلام آباد میں بیٹھ کر "گڈ بلوچستانی" بننے کی کوشش میں غلط معلومات پھیلا رہا ہو، یہ اجازت نہیں دی جائے گی۔ #Balochistan #BalochistanKitabKarwan #PromoteBooksReadingCulture #StopBalochGenocide
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
0
14
47
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
7 hours
#Facts 🚨 Records of police crackdown on Book stalls across Balochistan … ⬇️ ( محترمہ تانیہ ! بغیر معلومات کے اسلام آباد میں بیٹھ کر خود کو "اچھا بلوچستانی" ثابت کرنے سے گریز کریں اور غلط معلومات مت پھیلائیں ) ⚠️ ⬇️ بلوچستان بھر میں کتاب کاروان کے کتابی اسٹال پر تقریباً درجن بھر شہروں کے 21 مقامات پر ریاستی فورسز بلخصوص پولیس اور لیویز نے دھاوا کیا ، شرکاء کی پروفالنگ کی گئی ، کتابیں چھین کر طلباء پر درجنوں سنگین مقدمات درج کیے گئے اس تمام صورتحال کو مقامی، ملکی اور غیر ملکی صحافیوں نے رپورٹ کیا ہے کتاب کاروان پر ریاستی دھاوا کے واقعات : ⬇️ 1- گوادر شہر میں 21 جنوری بوقت 12 بجے کو ڈھوریہ سکول کے سامنے بک سٹال پر حملہ ہوا ، شرکا اور کتابیں گرفتار کی گئیں ⬇️ نیز یہ کتابیں پچھلے ایک ماہ سے گوادر پولیس اسٹیشن میں قید ہیں ⬇️ 2- حب : بلوچستان کے صعنتی شہر ، حب میں 20 جنوری کو جن طلباء نے بک اسٹال لگایا تھا ، ان پر ناصرف پرچہ درج کیاگیا بلکہ مقدمات میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں ⬇️ 3- سبی : 11 جنوری 2025 کو بلوچستان کے شہر سبی میں لگے کتاب کاروان پر لیویز اہلکاروں سمیت چند نامعلوم افراد نے حملہ کرکے سٹال پر موجود نوجوان عامر بلوچ کو لاپتہ کیاگیا اور کتابیں ضبط کرکے نامعلوم مقام منتقل کردی گئیں تھیں ۔۔ 4- ڈیرہ مراد جمالی : اس سے قبل 7 جنوری 2025 کو بلوچستان کے ڈیویژن نصیرآباد کی تحصیل ڈیرہ مراد جمالی میں ناصرف اسٹال پر پولیس نے دھاوا بول کر طلباء کی پروفالنگ کی بلکہ بعد ازاں کتابیں چھین کر طلباء پر مقدمات درج کئے گئے 5- ڈیرہ غازی خان شہر میں بلوچستان کتاب کاروان پر پنجاب پولیس نے دھاوا بول کر کتابیں چھین لیں اور شرکا پر مقدمات درج کئے گئے جبکہ دوسرے روز اس واقع کے خلاف پریس کلب پر احتجاج کرنے والے طلباء پر تشدد کیاگیا اور احتجاج کرنے والے بیشتر طلباء کو لاپتہ کیاگیا 6- یارو کھوسہ : کوہ سلیمان کے شہر یاروکھوسہ میں 23 جنوری 2025 کو باڑر ملٹری پولیس + پنجاب پولیس نے بک اسٹال پر دھاوا بول کر کتابیں ضبط کرلی اور شرکا طلباء پر مقدمات درج کئے گئے 7- داجل : کوہ سلیمان کے ایک چھوٹے سے قصبے داجل کے اندر 29 جنوری کو بلوچستان کتاب کاروان کے سلسلہ میں لگے بک اسٹال پر دھاوا بول کر پولیس نے درجنوں کتابیں ضبط اور طلباء کو لاپتہ کردیا تھا جنھیں چند گھنٹوں پر رہا کردیا گیا تھا 8- فاضلہ کچھ شہر : کوہ سلیمان کے شہر فاضلہ کچھ میں 27 جنوری کو بارڈر ملٹری پولیس نے دھاوا بلوچ کر جاری کتاب کاروان کے سٹال کو زبردستی بند کروا کر کتابیں چھین لی تھیں ۔۔ ⬇️ 9- تونسہ : تونسہ شہر میں 14 جنوری 2025 کو لگے بلوچستان کتاب کاروان کے سٹال پر پنجاب پولیس اور نامعلوم افراد نے دھاوا بول کر ، سٹال پر موجود طلباء کی پروفالنگ کی گئی بعد ازاں بلوچ خاتون سعدیہ بلوچ کو وقتی طور پر نظر بند کردیا گیا تھا ۔۔ ⬇️ اس کے علاوہ، بلوچستان کے مختلف چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں سمیت پنجاب اور سندھ کے بلوچ علاقوں میں بھی کتابی اسٹالز پر موجود طلبہ اور شہریوں کو ہراساں کیا گیا۔ بعض مقامات پر دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کیے گئے۔ **بلوچستان فیکٹ**: کسی بھی شہری کو، چاہے وہ بلوچستان میں موجود ہو یا ایک دہائی سے ہزاروں میل دور اسلام آباد میں بیٹھ کر "گڈ بلوچستانی" بننے کی کوشش میں غلط معلومات پھیلا رہا ہو، یہ اجازت نہیں دی جائے گی۔ #Balochistan #BalochistanKitabKarwan #PromoteBooksReadingCulture #StopBalochGenocide
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
@bazai_tania
Tania Bazai (Humanist)🇵🇰 🇩🇰🇵🇰 🇩🇰
2 days
I am from Balochistan.Please don't spread fake news,u know nothing about Balochistan, u always spread negativity&portray a bad image of Balochistan,don't give your analysis if you don't belong to that place, you know you are paid for every, at least have some shame! @HamidMirPAK
Tweet media one
3
27
77
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
2 days
آئیں ہم آپکو سردار ثناءاللہ زھری کے ڈیتھ اسکواڈ کے غنڈوں کی کچھ مختصر تفصیل بتا دیتے ہیں 1988 میں ثناءاللہ زہری نے اپنے بھائی سردار رسول بخش کو کوئٹہ میں شہید کیا 2005 میں باقاعدہ انہی ڈیتھ اسکواڈ کو تشکیل دیا سب سے پہلےانکا نشانہ ایوب یوسی ناظم بنا جس کے گوشت کو نوچ کر لے گیے پھر 2006 میں یہی ڈیتھ اسکواڈ کے غنڈوں نے اسلامی رویات کو پامال کر کے 7 نمازوں کو بمعہ پیش امام تراویح کے دوران مسجد میں شہید کردیا گیا اور پھر 3.4 سال کے اندر 83 سے اوپر افراد کو مختلف ٹارگٹ کلروں میں شہید کیے۔۔ پھر 2007 میں 3 نوجوان انجنیرز جو روڈ سروئے کرنے آئے تھے انکو زھری فراخود میں شہید کردیۓ گئے اس کے بعد جتک قبیلہ کے 21 سے زائد افراد کو اب تک شہید کئے جاچکے ہیں۔ زھری میں رئیس قبیلہ کے بزرگ میر حبیب اللہ اور 5 دیگر افراد شہید کردیۓ شیخ برادری کے 7 افرادشہید کیے ہیں 1996 میں تراسانی قبیلہ کے وڈیرہ عبدالعزیز کو ثنااللہ زھری نے ا��جیرہ میں خود فائر کر کے شہید کیا اب تک تراسانی قبیلہ کے 13 افراد سے زاہد لوگ شہید کردئے جاچکے ہیں شاہوزئی قبیلہ کے 17 افراد کو ٹریکٹر میں ایک ساتھ شہید کیے اور اس کے بعد دیگر کئی افراد شہید کردیے ہیں۔ جمالزئی قبیلہ کے 46 افراد سے زاہد شہید کیے ہیں زھری میں ایک قبیلہ بھی ان کی ظلم و زیادتیوں سے نہیں بچا ہیں کھنی قبیلہ کے 35 افراد مارے گئے اور انکو انکے علاقہ انجیرہ سے نکال دیا گیا۔ جتک قبیلہ کے سردار کو انجیرہ بلا کر انکے معزیزین کو نشہ دیکر ان پر تشدد کیا گیا اور 3 افراد اسی وقت شہید کردئیے گئے پھر ان کو ویرانے میں پھینک دیا موسیانی قبیلہ کے ماسٹر احمد علی اور اسکے بیٹے کی منگیتر کو وڈیرہ ابرھیم اپنے ساتھ زبردستی رشتہ نہ دینے پر دونوں باپ بیٹے کو شہید کردیا گیا اپنے ماموں نواب امان اللہ خان زھری کو بھی نہیں بخشا انکے بیٹے میر ریاض اور نواسہ مردان اور دیگر دو افراد کو شیہد کیا بھتیجا میر دادا خان آج تک انجیرہ سے غائب ہیں زھری کے ویگنوں کو بدوکشت کے مقام پر ڈیلی تلاشی لی جاتی بندے اٹھاتے اور عورتوں کی تلاشی لیتے زیورات اور نقدی لے جاتے اور با آسانی انجیرہ چلے جاتے ثناءاللہ کے ڈیتھ اسکواڈ کے یہ کچھ موٹے موٹے واقعات ہیں باغبانہ سے کئی لوگوں کو اغوا کیا ہیں ان سے نہ جیوا مولہ سوراب توتک قلات لسبیلہ خضدار بچا ہے بلکہ انکی داستانیں لورالائی تک ہیں سن 2000 سے اب تک کم و پیش اس ڈیتھ اسکواڈ نے جھالاوان میں 450 کے قریب لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہیں انجیرہ روڈ پر سینکڑوں گاڈیوں کو لوٹنا اور مصافر عورتوں کے ساتھ ذیادہ تی کرنا ان کا معمول ہیں اس ڈیتھ اسکواڈ کا بہت بڈا چین ہیں اگر کوئی اسکو ووٹ نہیں دیتا پھر دوسرے دن انکی لاش ملتی ہیں ان واقعات میں پہلے انکے بیٹے سکندر بھائی مہراللہ بھتیجا زیب سرفہرست تھے اب یہ کام ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ انکے خاص قریب ترین سیاسی ورکر الیکشن میں ہار کی وجہ سر انجام دیتے ہیں انجیرہ میں ہر روز کئی فیصلے ہوتے ہیں لوگوں پر اپنی مرضی کا فیصلہ مسلط کرتے ہیں اور پھر ان پر کئی لاکھ چارم کے نام پر وصولی کرتے ہیں یہ سب 40 داہیوں سے گورنمنٹ کے دست شفقت سے ہورہے ہے کہ کس طرح بلوچ قوم کو کمزور کیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑا جائے ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ رحیم بخش ظہور جمالزئی شریف جتک وڈیرہ ابرھیم اور دیگر پر پر درجنوں قتل کے مقدمات ہیں لیکن یہ ہر وقت ثناءاللہ زہری کے خاص سیکورٹی پر معمور ہوتے ہیں اس لیے ان پر قانون فالو نہیں ہوتا اللہ کے ہاں دیر ہیں اندھیر نہیں انشاء اللہ اب اس ڈیتھ اسکواڈ کا زوال شروع ہیں #SaveBalochWomen
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
Tweet media four
11
91
237
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
5 days
#Facts 🚨 #Exposing Military touts of Quetta Cantt ⚠️ ( Reposting) بابر خجک : پس پردہ حقائق ، شادی کے نام پر بلوچ خواتین کا استعمال ، پہلی بیوی کا قتل اور غیر ظاہر شدہ معاملات بی آر سی خضدار کے بدنام زمانہ عبدالقادر خجک، جو آجکل بابر خجک کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور مینہ مجید کے " بندہِ خاض " بن کر سامنے آرہے ہیں ، کی مبینہ ازدواجی زندگی ، اپنی منکوحہ کا قتل اور دیگر معاملات کے حوالے سے کچھ اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، اس کی دوسری شادی ایک ایڈووکیٹ فاطمہ نظر نامی خاتون سے گزشتہ دنوں ہوئی، تاہم اس سے پہلے ان کی مبینہ شادی بلوچی شاعر و ادیب حسین عنقا کی پوتی سے بھی ہو چکی تھی۔ یہ شادی جتنی خفیہ رکھی گئی، اتنا ہی ان کی پہلی بیوی سمیرا شوکت حسین کی موت کو بھی پراسرار انداز میں چھپایا گیا۔ کبھی اسے خودکشی قرار دیا گیا، تو کبھی دل کے دورے کا سبب بتایا گیا۔ مزید یہ کہ، بابر خچک کے دباؤ پر سمیرا کی بہن گلشن شوکت کی شادی بھی کوئٹہ کینٹ میں تعینات ایک ایم آئی افسر سے کروائی گئی۔ سمیرا کے مبینہ نکاح اور شادی کو بابر خجک، گلشن شوکت اور اسکے شوہر سمیت دیگر چند قریبی لوگ ہی جانتے تھے ذرائع کے مطابق، 2016 میں بابر خجک کا نکاح سمیرا عنقاء سے غالباً ستمبر کے ماہ میں ہوا۔ اس وقت بابر خچک خود کو ایک قوم پرست شخصیت کے طور پر پیش کر کے مین اسٹریم میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ نکاح کے بعد سمیرا نے کافی عرصہ اسلام آباد میں گزارا، جبکہ اس کی بہن گلشن شوکت کوئٹہ کینٹ میں مقیم رہی۔ تاہم، سمیرا کئی کوششوں کے باوجود کوئٹہ واپس نہ آ سکی۔ بالآخر، 2018 میں سمیرا کسی قریبی تقریب کے بعد جب وہ کوئٹہ واپس آئی، تو چند دن بعد 15 مئی 2018 کو پراسرار حالات میں ہلاک ہو گئی۔ اس موت کو بڑی چالاکی سے کبھی خودکشی اور کبھی دل کے دورے کا نام دیا گیا لیکن یہ موت گولی لگنے سے ہوئی تھی بابر خجک کی منفی سرگرمیوں کا دائرہ کافی وسیع رہا ہے۔ کالج کے دور سے لے کر آج تک، منشیات کا استعمال ، منیشات فروشی ، کالج کے احاطے میں ہم جنس پرستی سمیت 2016 کے بعد اس کے روابط ایم آئی اور آئی ایس آئی کے مختلف حلقوں تک رہے ۔ پھر وہ حمید گل کے بیٹے کے ذریعے "نوجوانانِ پاکستان" کے بلوچستان آمد میں شامل رہا ، اور 2016 میں سمیرا سے خفیہ شادی اور اس کی موت تک مختلف معاملات میں مبینہ ملوث رہا ، مگر نکاح اور موت سے جڑے تمام عناصر کو چھپایا گیا اور اپنی شناخت بدلنے کے درپے رہا ۔ سمیرا ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ تھی جسکے تمام تر پبلک اکاؤنٹ چند ماہ قبل بند کردئیے گئے ہیں جنکے پیچھے اسی بابر خجک کا ہاتھ ہے ، بابر خجک بلوچ ایکٹوسٹ کی طرف سے بے نقاب ہونے کے بعد اور یا غالباً اپنی دوسری بیوی فاطمہ نظر کے سامنے پہلی منکوحہ کا ریکارڈ ختم کرنے کے درپے تھا ، سمیرا کے سوشل میڈیا کے تمام تر اکاؤنٹس چند ماہ قبل ہی غائب کردئیے گئے وضاحت : (اس رپورٹ میں کچھ نکات دانستہ طور پر مخفی رکھے گئے ہیں تاکہ دوسرے خاندان کی عزت و وقار کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم، جلد ہی ایک اہم دستاویز منظر عام پر لائی جائے گی۔) بلوچستان فیکٹ جلد مزید تفصیلات منظرِ عام پر لائے گا، تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ -ایم آئی ٹاوٹ بابر خچک کون ہے اور اس کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ - بی آڑ سی خضدار سے حمید گل کے بیٹے اور پھر مینہ مجید کا ٹاوٹ بننے تک ، ایک منیشات فروش اور ملٹری ٹاوٹ کیسے خود کو عام شہری لکھواتا رہا ؟؟ - کیسے بیوی کے قتل کے بعد منظرعام سے غائب عبدالقادر ، بابر خچک بن کر لانگ مارچ کے ذریعے سامنے آئی ؟ - کیسے وہ مخصوص حلقوں کا آلہ کار بنا اور اس عمل میں کئی زندگیاں متاثر ہوئیں؟ مزید تفصیلات کے لیے بلوچستان فیکٹ پر نظر رکھیں۔ #Balochistan #Quetta #Sibbi
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
Tweet media four
3
33
96
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
6 days
#Facts 🚨 پاکستان کی وزارتِ دفاع کے زیرِ اثر پروپیگنڈا میڈیا، جو بلوچستان سے متعلق غلط معلومات پھیلانے میں مصروف ہے اور جسے باقاعدہ بلوچستان حکومت کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے، ایک بار پھر ذاکر والد عبدالرزاق کی جبری گمشدگی اور بازیابی کے حوالے سے گمراہ کن بیانات دے رہا ہے۔ ذاکر والد عبد الرزاق سکنہ پسنی گوادر جسے 17 دسمبر 2023 کو گوادر کے علاقے ڈھور کی چیک پوسٹ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ اہلخانہ نے ذاکر کی بازیابی کے لیے کئی بار سی پیک روڈ بلاک کر کے دھرنے دیے اور ہر ممکن کوشش کی بازیابی کیلئے احتجاج و دھرنا : بالآخر اپریل 2024 کی 5 تاریخ کو، 6 ماہ کی جبری گمشدگی کے بعد ذاکر بلوچ بازیاب ہوگئے جسکی بازیابی کے سوشل میڈیا پر مکمل شواہد موجود ہیں بازیابی ثبوت: ذاکر بلوچ نے بلاجواز جبری گمشدگی، تشدد اور ناانصافی کا سامنا کرنے کے بعد رہائی پاتے ہی مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اسی راہ میں شہید ہوگئے۔ اب پاکستان کی وزارتِ دفاع کے زیرِ اثر میڈیا ان کے بارے میں گمراہ کن معلومات پھیلا کر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خبردار ! ⚠️ فیکٹ بلوچستان , وزارتِ دفاع، وائس آف بلوچستان یا کوئی بھی تیسرا ادارہ بلوچستان کے متعلق گمراہ کن معلومات پھیلانے کی اجازت نہیں دے گا، چاہے اس مقصد کے لیے کروڑوں کا بجٹ ہی کیوں نہ مختص کر لیا جائے۔ #Balochistan #Gwadar #StopBalochGenocide #EndEnforcedDisappearences
Tweet media one
Tweet media two
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
2 months
#Fact #FactCheck پڑھا لکھا نوجوان ذاکر بلوچ بے وجہ جبری گمشدگی کے بعد کیسے ایک عسکریت پسند بنا اور پھر مارا گیا ؟ گزشتہ دنوں بلوچستان کے علاقے پنجگور سبزکوہ میں پاکستانی فورسز کے ساتھ دوبدو لڑائی کے دوران شہید ہونے والے تین بلوچ فرزندوں میں سے ایک کی شناخت ذاکر ولد عبدالرزاق کے نام سے ہوئی۔ ذاکر وہی نوجوان تھا جسے 17 دسمبر 2023 کو گوادر کے علاقے ڈھور کی چیک پوسٹ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ اہلخانہ نے ذاکر کی بازیابی کے لیے کئی بار سی پیک روڈ بلاک کر کے دھرنے دیے اور ہر ممکن کوشش کی بازیابی کیلئے احتجاج و دھرنا : بالآخر اپریل 2024 کی 5 تاریخ کو، 6 ماہ کی جبری گمشدگی کے بعد ذاکر بلوچ بازیاب ہوگئے جسکی بازیابی کے سوشل میڈیا پر مکمل شواہد موجود ہیں بازیابی ثبوت: مگر یہی ذاکر بلوچ دورانِ گمشدگی ہونے والے غیرانسانی تشدد ، جبری گمشدگی، اور اسکی بازیابی کیلئے ہونے والے احتجاج کے دوران اس کی بہنوں پر کیے گئے ریاستی تشدد نے ذاکر کی سوچ کو بدل دیا ذاکر، جو ایک عام کاروباری شخص تھا، اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اور مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا۔ بالآخر اپنے ظلم کا بدلہ لیتے لیتے، وہ گزشتہ دنوں پاکستانی فورسز کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی، غیرانسانی تشدد، اور دیگر ریاستی جبر کے نتیجے میں تعلیم یافتہ نوجوان بندوق اُٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جب قانون اور انصاف کی فراہمی معطل ہوجائے تو مظلوم اپنے حق کے لیے خود انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ #StopBalochGenocide #EndEnforcedDisappearances #Balochistan #Turbat #Gwadar
Tweet media one
Tweet media two
3
31
82
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
7 days
2/2 Even some old Social media touts of Ministry of Defense are commenting and identifying video game footage. What a shame to ISPR propaganda media , 9billion $ just for a video game ? #JustForFun ...🤡
Tweet media one
Tweet media two
0
1
23
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
7 days
@AlMuqatil786 Clips from a sniper video game are being circulated under the guise of the Balochistan operation. ( What a downfall to ISPR propaganda Media ) 🤡
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
7 days
#Facts ⬇️ Clips from a sniper video game are being circulated under the guise of the Balochistan operation. ( What a downfall to ISPR propaganda Media ) ⬇️ - Ek to Game editor sahb Zhob mein BLA ko maar rahe hain , BLA don't operate in Zhob - upar se sniper ka angle aisa rakha hai jaise fauji sahb drone ke upar let kar Free Fire khel rahe hain! - Jis sniper marksman ko Shoot karty dikhaya gya wo Pic March-2023 ki military training ki hay ⬇️ -Graphics dark kardiye , brightness dim kardi Takeh koi guess na kr sky k aap ELITE SHOOTER khel rhy ya CALL OF DUTY 2 Fun Note : Ab Banda in Jahilo ko Kya kya Facts btaye _ Ye Al-Muqaatil naam ke propaganda account , Kabhi Syria ki video utha kr uski brightness dim kr deta , Kabhi Houthi ( حوثیوں) Ko ispr k name sy circulate kya jata hay , to kabhi Sniper video games k clips ko edit kar kar ke apny tags laga kr aisay jahilana daway karte hain ke banda sochnay pe majboor ho jaye , k ISPR per kitny bury din chal rhy 🤡 But Ap ' Elite shooter ' he khelo atleast usky graphics to achy hn , baki asli duty per Mat jaiye ga BLA snap checking krwa deti hay . #VideoGameByISPR #Balochistan
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
Tweet media four
4
4
49
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
8 days
2/2 سماجی کارکن عبدالرحمان عزیز یا فوجی ڈرگ مافیہ کا شے قیوم بلوچ ؟ پاکستانی فوجی کو بلوچستان میں اپنے بیانیہ کیلئے عام بلوچ کیوں نہیں مل رہا ہے؟ ڈرگ مافیہ ، منیشات فروش ، مسلح گروہ اور دیگر دہشتگرد گروپوں کے شے قیوم جیسے سرغنہ ہی کیوں ؟
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
1
17
70
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
8 days
#Facts 🚨 #Expose 🚨🚨⚠️ ◀️ کوئٹہ کینٹ کے گیت گانے والے جعلی بلوچوں کے بے نقاب ہونے کا سلسلہ جاری ۔۔۔۔ بدنام زمانہ حمنہ ملک اور فرینہ خٹک کے بعد پیش خدمت ہے پنجاب کا ایک اور کردار ـــ آصفہ بی بی عرف زیمل زیبی ــ پنجاب کی آصفہ بھٹی جو سنگر زیمل زیبی کے نام سے جانی جاتی ہیں اور اس وقت بلوچستان میں فوجی تقریبات میں بلوچی براہوئی اور پشتو موسیقار ہونے کی دعویدار ہیں اور زیمل زیبی کے طور پر مشہور ہیں یہ محترمہ 14 اگست یا فوجی کنٹونمنٹ کی تقریبات میں بلوچ کے طور پر شرکت کرتی ہیں، مگر حقیقت میں وہ پنجاب کے شہر جامپور کے علاقے کوٹلہ پیرن شاہ کی کالونی رحمت ٹاؤن کی رہائشی ہیں۔ ایک عام موسیقار سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا، مگر جب ایک موسیقار مظلوم کے بجائے پنجاب سے آئے ہوئے ظالموں کے گیت گائے اور قومی تقسیم کی وجہ بنے تو اس کی حقیقت کو بے نقاب کرنا ہر کسی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ پنجاب کے شہر جامپور کی رہائشی آصفہ بی بی، جو کہ ذات بھٹی ہیں، اس وقت بلوچستان میں زیمل زیبی کے نام سے بلوچی اور براہوئی گانے گاتی ہیں اور سرکاری سطح پر خود کو بلوچ ظاہر کرکے پاکستانی تہواروں میں شرکت کرتی ہیں۔ آصفہ بی بی کا خاندان پیشہ ورانہ طور پر ڈھول کے کام سے جڑا ہوا ہے، اور وہ چند سال قبل بلوچستان آئے، جس کے بعد آصفہ بی بی نے خود کو بلوچ سمجھنا شروع کر دیا۔ وائس آف بلوچستان کی حمنہ ملک سے لے کر کینٹ میں نچانے گانے والی بنوں کی فرینہ خٹک تک، فرح عظیم شاہ تک ہر دوسرا کردار آپ کو پنجاب سے ملے گا، جو خود کو بلوچ ظاہر کرکے پاکستانیت کے گیت گاتے ہیں۔ ان تمام کرداروں کو بلوچستان فیکٹ خبردار کرتا ہے کہ وہ اپنے کردار پر خود غور کریں، ورنہ حمنہ ملک کے شہباز ٹاؤن کے گھر سے آصفہ بی بی کے فوجی گانوں تک، سب کو بے نقاب کیا جائے گا۔ #SayNoToFakeBaloch #Balochistan #Quetta #Turbat #Kalat
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
20
48
164
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
9 days
#Facts 🚨 #BreakingNews 🚨🚨 بی ایل اے (آزاد) نے ISPR کے جھوٹے دعوے کی تردید کردی "قلات میں کوئی ساتھی شہید تو دور کی بات کوئی جنگجو زخمی تک نہیں ہوا جبکہ فورسزز کے 25 اہلکار ہلاک کئے ۔۔۔" آزاد بلوچ تفصیلات: گزشتہ شب بی ایل اے (آزاد) نے قلات کے علاقے منگچر میں تین مختلف مقامات پر ناکہ بندی کرتے ہوئے علاقے کا کنٹرول سنبھالا اور متعدد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں 25 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے، تاہم سرکاری ذرائع اور فوج سے منسلک اطلاعاتی ذرائع نے ابتدائی طور پر اس خبر کی تردید کی۔ بعد ازاں، صبح کے وقت سرکاری بیانات میں 18 اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی، لیکن ساتھ ہی حملہ آوروں کے بھاری جانی نقصان کے دعوے بھی کیے گئے۔ بی ایل اے (آزاد) نے آج شام ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ گزشتہ شب ہونے والے حملے میں تنظیم کے کسی بھی رکن کے زخمی یا شہید ہونے کی اطلاعات درست نہیں ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچ مزاحمتی قوتیں اپنے جانی نقصانات کو تسلیم کرنے اور اپنے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی روایت رکھتی ہیں، جبکہ سرکاری ادارے عموماً اپنے جانی نقصان کو کم ظاہر کرنے یا متنازع بیانات جاری کرنے کی پالیسی اپناتے ہیں۔ فیکٹ بلوچستان کسی بھی قسم کے پروپیگنڈا کو بے اثر کرنے کے لیے حقائق پر مبنی اطلاعات عوام کے سامنے لانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ مزید برآں، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی غلط معلومات کی تشہیر کو بے نقاب کیا جاتا رہے گا تاکہ بلوچستان میں اطلاعاتی خلا برقرار نہ رہے اور ہر خبر کی مکمل چھان بین کے بعد عوام تک پہنچائی جائے #Balochistan #ISPR #Qalat
Tweet media one
Tweet media two
15
54
194
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
10 days
#Facts 🚨 Disinformation campaign by MOD Media ( Defence media) exposed ..⚠️ قلات میں ہونے والے حالیہ بڑے حملے کے حوالے سے ریاستی اداروں سے منسلک پروپیگنڈا اکاؤنٹس کا جھوٹ حیران کن ہے ، اندازہ لگائیں ریاست اور اسکے ادارے بلوچستان سے متعلق ڈس انفارمیشن کیسے پھیلاتے ہیں ، ایک وسیع حملے کو پوری رات ناکام لکھ کر غلط خبر پھیلائی جاتی رہی ـــ ۔ گزشتہ شب، منگچر کے علاقے میں پاکستانی فورسز پر تین مختلف مقامات پر حملے کیے گئے، جن کے نتیجے میں 20 سے زائد اہلکار ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، حملے کے بعد گوریلا جنگجو رات دیر گئے تک سڑکوں پر اسنیپ چیکنگ کرتے رہے، جبکہ ایک پورا کیمپ ان کے کنٹرول میں رہا۔ تاہم، حملے کے صرف 20 منٹ بعد ہی وزارتِ دفاع سے منسلک ذرائع نے سوشل میڈیا پر حملے کو "ناکام" قرار دینے والی اطلاعات پھیلانا شروع کر دیں تو کبھی اسے عام شہریوں پر حملہ قرار دیکر جھوٹی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی گئی مختلف ذرائع کے مطابق، ریاستی اداروں سے منسلک پروپیگنڈا اکاؤنٹس اس طرح کے واقعات میں کی متضاد رپورٹنگ میں ملوث ہوتے ہیں جو کہ اخلاقی شکست کو ظاہر کرتا ہے یہ صورتحال اس بڑی بحث کو جنم دیتی ہے کہ جب خود ریاستی ادارے معلومات کی غلط بیانی اور گمراہ کن خبروں کو فروغ دے رہے ہیں، تو وہ عام شہریوں کے خلاف سائبر قوانین کے تحت کارروائی کرنے کا جواز کیسے رکھ سکتے ہیں؟ فیکٹ بلوچستان اور دیگر غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے ریاستی سرپرستی میں چلنے والے میڈیا سیلز، جیسے کہ "وائس آف بلوچستان" اور دیگر حکومتی اداروں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان سے متعلق گمراہ کن معلومات پھیلانے سے باز رہیں، ورنہ حقائق کے سامنے بے نقاب ہونا ناگزیر ہوگا۔ #Balochistan Say no to Disinformation by ISPR
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
Tweet media four
8
35
131
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
11 days
#Facts 🚨 #EnforcedDisaapearance Accepted by Defence minister Propoganda account ڈیفنس منسٹری کے میڈیا سیل سے منسلک ایک پروپیگنڈا اکاؤنٹ نے خضدار سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے انس ولد احمد بلوچ کی گمشدگی کا بالآخر اعتراف کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق، چند روز قبل خضدار کے علاقے اسماعیل آباد سے کم عمر بچے انس ولد احمد کو پاکستانی فورسز نے جبراً لاپتہ کر دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، یہ کارروائی چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح بچوں کو اغوا کرنے کے مترادف تھی۔ اس واقعے کے خلاف اہلِ خانہ نے احتجاج کرتے ہوئے سڑک بلاک کر دی، تاہم کسی بھی پاکستانی ادارے نے اس جبری گمشدگی کو تسلیم نہیں کیا تھا آج، وزراتِ دفاع سے وابستہ ایک میڈیا اکاؤنٹ نے انس کی جبری گمشدگی کا اعتراف کرتے ہوئے حسبِ معمول اسے "دہشت گرد" قرار دے دیا۔ یہ رجحان کوئی نیا نہیں، بلکہ جبری گمشدگیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے ریاستی سطح پر اپنائی جانے والی ایک عام پالیسی کا تسلسل ہے۔ وزارتِ دفاع کے پروپیگنڈا عناصر اپنے اداروں کے غیر قانونی اقدامات کو خود ہی بے نقاب کرتے جا رہے ہیں، اور فیکٹ بلوچستان ان کے مذموم عزائم اور نسل کش پالیسیوں کو ہر ممکن حد تک بے نقاب کرتا رہے گا۔ #Balochistan #EndEnforcedDisappearances
Tweet media one
Tweet media two
5
40
124
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
13 days
فیکٹ بلوچستان کسی بھی ملک کے پرچم کی بے حرمتی کے حامی نہیں لیکن جب ریلی کے شرکاء کو کرائے پر جمع کیا جائے گا تو ایسے مناظر دیکھنے کو ملیں گے کچھ وقت کے بعد پرچم سڑکوں پر پھینکے جائیں گے ڈالبندین میں کرائے پر منعقد کی گئی ریلی کے مناظر۔ #Dalbandin #Balochistan
Tweet media one
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
13 days
#Facts 🚨 25 جنوری کے بلوچ قومی اجتماع کے خلاف ڈالبندین میں ریاستی ریلی میں غیر مقامی مزدوروں کے ساتھ ایف سی کے دھوبی اور حجام بے نقاب _ تفصیلات کے مطابق ڈالبندین میں "بظاہر" سردار سنجرانی کی طرف سے نکالی گئی "پاکستان زندہ باد " ریلی کو مکمل طور پر ایف سی ، لیویز اور بلوچستان حکومت نے معاشی کمک کیا مگر خاطر خواہ تعداد میں لوگ نا آسکے اور 70+80 غیر رجسٹرڈ اور فورسز کی گاڑیوں کا کنوئے بنا کر ریلی بنائی گئی ـ تصاویر اور ویڈیوز سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ریلی کے شرکاء میں زیادہ تر افراد تنگ اور چست شلواروں میں ملبوس تھے، گاڑیاں بلوچستان لیویز اور ایف سی اہلکاروں سمیت بلوچستان کے پشتون بیلٹ سے لائی گئیں ـ بڑے جھنڈے کو پکڑے تمام تر افراد پنجاب کے اپر ایریاز سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان افراد کی اکثریت مزدوری کی غرض سے آئے ہوئے معلوم ہوتی ہے جنہیں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر فوج نے پناہ دے رکھی ہے، لیکن انہیں ریاستی ریلیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے 25 جنوری کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچ نسل کشی کے خلاف اجتماع کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسی دن، بلوچستان کے دیگر سرداروں اور فوج کی حمایت یافتہ سیاستدانوں کی تقلید میں سنجرانی برادران نے بھی "پاکستان زندہ باد" ریلی کا انعقاد کیا۔ تاہم، عوامی اجتماع کے خوف سے مذکورہ سردار نے پیٹ درد کا بہانہ بنا کر نجی طیارے کے ذریعے کراچی کا رخ کر لیا۔ بالآخر، فوجی قیادت کے دباؤ پر یہ ریلی 26 جنوری کو منعقد کی گئی، جس میں زیادہ تر شرکاء اور گاڑیاں پنجاب اور بلوچستان کے پشتون علاقوں سے لائی گئیں۔ شرکاء کے لباس سے واضح تھا کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ریاست کا یہ عمل نہ صرف ڈالبندین کے مقامی لوگوں میں نفرت کا باعث بن رہا ہے بلکہ سردار اور سرکار کے درمیان پرانے تعلقات کو بھی بے نقاب کر رہا ہے۔ 75 سال سے ریاست جن سرداروں کے حوالے سے بلوچ عوام کو طعنے دیتی رہی ہے، وہی سردار آج ریاست کی گود میں بیٹھے ہیں۔ فیکٹ بلوچستان ، بلوچستان حکومت اور وزرات دفاع ایسے سستے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈا معاملات کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا #Dalbandin #Balochistan #StopBalochGenocide #EndEnforcedDisappearances
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
Tweet media four
1
2
35
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
13 days
#Facts 🚨 25 جنوری کے بلوچ قومی اجتماع کے خلاف ڈالبندین میں ریاستی ریلی میں غیر مقامی مزدوروں کے ساتھ ایف سی کے دھوبی اور حجام بے نقاب _ تفصیلات کے مطابق ڈالبندین میں "بظاہر" سردار سنجرانی کی طرف سے نکالی گئی "پاکستان زندہ باد " ریلی کو مکمل طور پر ایف سی ، لیویز اور بلوچستان حکومت نے معاشی کمک کیا مگر خاطر خواہ تعداد میں لوگ نا آسکے اور 70+80 غیر رجسٹرڈ اور فورسز کی گاڑیوں کا کنوئے بنا کر ریلی بنائی گئی ـ تصاویر اور ویڈیوز سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ریلی کے شرکاء میں زیادہ تر افراد تنگ اور چست شلواروں میں ملبوس تھے، گاڑیاں بلوچستان لیویز اور ایف سی اہلکاروں سمیت بلوچستان کے پشتون بیلٹ سے لائی گئیں ـ بڑے جھنڈے کو پکڑے تمام تر افراد پنجاب کے اپر ایریاز سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان افراد کی اکثریت مزدوری کی غرض سے آئے ہوئے معلوم ہوتی ہے جنہیں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر فوج نے پناہ دے رکھی ہے، لیکن انہیں ریاستی ریلیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے 25 جنوری کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچ نسل کشی کے خلاف اجتماع کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسی دن، بلوچستان کے دیگر سرداروں اور فوج کی حمایت یافتہ سیاستدانوں کی تقلید میں سنجرانی برادران نے بھی "پاکستان زندہ باد" ریلی کا انعقاد کیا۔ تاہم، عوامی اجتماع کے خوف سے مذکورہ سردار نے پیٹ درد کا بہانہ بنا کر نجی طیارے کے ذریعے کراچی کا رخ کر لیا۔ بالآخر، فوجی قیادت کے دباؤ پر یہ ریلی 26 جنوری کو منعقد کی گئی، جس میں زیادہ تر شرکاء اور گاڑیاں پنجاب اور بلوچستان کے پشتون علاقوں سے لائی گئیں۔ شرکاء کے لباس سے واضح تھا کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ریاست کا یہ عمل نہ صرف ڈالبندین کے مقامی لوگوں میں نفرت کا باعث بن رہا ہے بلکہ سردار اور سرکار کے درمیان پرانے تعلقات کو بھی بے نقاب کر رہا ہے۔ 75 سال سے ریاست جن سرداروں کے حوالے سے بلوچ عوام کو طعنے دیتی رہی ہے، وہی سردار آج ریاست کی گود میں بیٹھے ہیں۔ فیکٹ بلوچستان ، بلوچستان حکومت اور وزرات دفاع ایسے سستے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈا معاملات کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا #Dalbandin #Balochistan #StopBalochGenocide #EndEnforcedDisappearances
Tweet media one
Tweet media two
Tweet media three
Tweet media four
8
32
111
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
16 days
@bahot_baluch جی بالکل یہ تصاویر ان خفیہ ریاستی درونز کا کارنامہ ہے جو گوادر سمیت پورے بلوچستان میں عام شہری آبادی کو رات کے وقت سرویلنس کرتے ہیں تصویر کی اونچائی سے ظاہر ہوتا ہے یہ DJI Mavic سے لی گئی ہے جو کہ پاکستانی بارڈر فورسز کی طرف سے کثرت سے استعمال کیاجارہا ہے جسکی رینج 8 میلز ہے
0
1
22
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
16 days
@FarhanKVirk شکست خوردہ حرکتیں مت کریں ، یہ تصاویر 24 جنوری کی ہیں ناکہ آج کے اجتماع کی ۔۔۔ مدمقابل ایک قوم ہے ، ایک خطہ ہے ناکہ کوئی پارلیمانی جماعت اور ناہی یہاں دیکھاوئے کا پاور شو ہے Facts ⬇️
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
16 days
#FactCheck 🛑 #Propaganda بلوچوں کے اتحاد سے خوفزدہ ریاست مختلف حربوں کے ذریعے ناکامی کے بعد ڈالبندین کی ایک دن قبل منعقد ہونے والی کارنر میٹنگ کی تصاویر وائرل کر رہی ہے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ 25 جنوری کا بلوچ قومی اجتماع ناکام ہوا ہے یہ تصاویر 24 جنوری کو عصر کے وقت لی گئیں اور ان کا 25 جنوری کے جلسے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈالبندین میں جاری بلوچ نسل کشی کے خلاف منعقد ہونے والے اجتماع کو دبانے کے لیے نیٹ ورک بند کر دیا گیا۔ چار دن سے بلوچستان کے پانچ بڑے شہروں میں انٹرنیٹ بند کرنے کے باوجود، گزشتہ رات سے چاغی، نوشکی، خاران اور واشک سمیت دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بھی معطل کر دی گئیں۔ جگہ جگہ چیک پوسٹس لگا کر شرکاء کو ہراساں کیا گیا، اور اجتماع سے قبل مختلف علاقوں کے سیاسی کارکنان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئیں۔ جب ریاست ان تمام حربوں میں ناکام رہی تو 24 جنوری کی وہ تصاویر کو بلوچ نسل کشی کے یادگاری دن سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم ان تمام جھوٹے پروپیگنڈوں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔ بلوچستان حکومت اور وزارت دفاع جتنا بھی جعلی پروپیگنڈا کرے یا اس پر بجٹ خرچ کرے، ہم ان کی حقیقت سامنے لاتے رہیں گے۔ #BalochGenocideRemembranceDay #StopBalochGenocide #Balochistan
Tweet media one
0
2
35
@balochistanfact
Balochistan Facts 🔎
17 days
محترم انس صاحب ، لاہور گوالمنڈی بیٹھ کر بلوچستان پر ابو جہلانہ تبصرے سے گریز کریں ۔۔ جس طلعت عزیز ولد عبد العزیز کو بی ایل اے کا رکن ظاہر کرکے پریس کانفرنس کرائی گئی تھی وہ پہلے سے جبری لاپتہ اور کوئٹہ تھانے کے قیدی ہیں اور سریاب روڈ پر واقع شیخان کالج کے پروفیسر عبدالعزیز شاھوانی کے بیٹے ہیں جو 25 اگست 2024 کو سریاب روڈ، کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور 28 اگست کے بعد موسیٰ خیل کے علاقے کنگری کے قریب کنگری لیویز اہلکاروں اور تفتیشی آفیسر عصمت اللہ کے حوالے کیا گیا اور 29 اگست کو انہیں کوئٹہ تھانے منتقل کیا گیا Facts ⬇️
1
3
40